سگ گزیدگی، سندھ حکومت پر مقدمہ چلائیں

210

سندھ میں کتے انسانوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں ، جس کی وجہ سے شہری جان سے جارہے ہیں اور بچنے والے ہفتوں زخموں کا علاج بھی کرواتے ہیں ۔ یہ سب کئی برس سے جاری ہے اور اب ساری حدوں کو پار کرچکا ہے ۔ اس پر عدالت عالیہ سندھ نے کئی مرتبہ واضح احکامات جاری کیے ہیں مگر سندھ حکومت کو سلام ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان بچانے کے بجائے کتوں کی بہبود میں مصروف ہے ۔ آوارہ کتوں کو مارنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ یہ کام صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتا رہا ہے بلکہ پوری د نیا میں یہ طریقہ مستعمل ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ سندھ کے بلدیاتی ادارے اور صوبائی حکومت روز عدالت میں ڈانٹ ڈپٹ سنتی ہے مگر کتوں کے خاتمے سے گریزاں ہے ۔ ہر مرتبہ عدالت انہیں مہلت دے دیتی ہے اور یوں کتوں کو بھی مہلت مل جاتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ عدالت سگ گزیدگی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا ذمہ دار صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کو قرار دے کر ان پر قتل کا مقدمہ چلائے ۔ ان ذمہ داروں کے ذاتی اکاؤنٹ سے زخمیوں کا علاج کروایا جائے اور انہیں جرمانے کی رقم ان کے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کرنے کا حکم دیا جائے ۔ اگر عدالت اس نوع کا قدم اٹھالے تو شاید سندھ حکومت اور بلدیہ کو ہوش آسکے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کسی فلاحی تنظیم کو کتوں کو ٹھکانے لگانے کے احکامات دیے جائیں اور اس کے اخراجات کی ادائیگی کا حکم سندھ حکومت کو دیا جائے ۔یہ خوش قسمتی ہے کہ ملک میں کورونا وائرس سے اب تک ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی ہے تاہم صرف اس کی تشخیصی کٹ کے لیے دس کروڑ روپے مختص کردیے گئے ہیں تاہم کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے روز ہی کئی المناک اموات ہورہی ہیں مگر اس کے لیے عملی قدم اٹھانے سے گریز کیا جارہا ہے ۔ اسے تضاد ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک جانب سندھ حکومت شہریوں کے تحفظ کی بات کرتی ہے مگر دوسری جانب عملی طور پر کتوں کا تحفظ کیا جارہا ہے ۔ منگل کو بھی عدالت میں سیکریٹری بلدیات نے بتایا کہ اس ضمن میں کام مکمل ہونے میں تین سال کا عرصہ لگے گا ۔ ان کی ایک ہی رٹ ہے کہ کتوں کو بانجھ بنایا جائے گا اور انہیں ریبیز کی ویکسین لگائی جائے گی ۔ سیکریٹری بلدیات روشن شیخ یہ بھی بتائیں کہ جو بچے ریبیز سے نہیں بلکہ کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے شدید زخمی ہوئے اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے گئے ، ان کے پاس ایسے بچوں کے لیے کون سا نسخہ ہے ۔ عدالت عالیہ سے بھی ہماری درخواست ہے کہ اس سلسلے میںاب مہلت دینے کے بجائے حتمی فیصلہ دے دیا جائے کہ یہ ایک دو شہریوںکا معاملہ نہیں ہے بلکہ پورے سندھ کے شہریوںکی جان کو خطرات درپیش ہیں ۔