معیشت کی بہتری بھینسوں کے سپرد

174

محمد اکرم خالد
گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی جانب سے عوامی ریلیف کے نام پر پٹرول کی قیمتوں میں 5 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا گیا جس کو ایک بڑا اقدام قرار دیا جارہا ہے یقینا وزیر اعظم کی نظر میں یہ ایک بڑا عوامی ریلیف ہوگا جبکہ عوامی مسائل کے تناظر میں یہ اقدام اُونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہے اب جبکہ حکومت دو سال کی مدت کو پورا کرنے کے قریب ہے ایسے وقت میں پٹرول کی قیمتوں میں پانچ روپے کی کمی سے عوام کی زندگیوں میں کسی خوشحالی کا دعویٰ ممکن نہیں پٹرول کی قیمتیں ہر دور اقتدار میں بڑھتی اور کم کی جاتی رہی ہیں اگر پچھلی حکومت کے اختتام پر پٹرول کی قیمت پر نظر ڈالیں تو اپریل 2018 میں پٹرول کی قیمت 87 روپے لیٹر تھی جبکہ اس وقت پانچ روپے کمی کے بعد پٹرول 109 سے 116 روپے فی لیڑ فروخت کیا جارہا ہے۔ 15 روپے فی لیٹر کمی کی نوید سنا کر 5 روپے کی کمی کا اعلان ایک نیا یوٹرن ثابت ہوا ہے۔ حکومت نے 25 ارب روپے ماہانہ کمانے کے لیے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بڑھادیے ہیں منی بجٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگادیے گئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکل لیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے یہ ایک بار پھر بڑا دعویٰ ہے کہ پاکستان کو اس وقت کسی معاشی بحران کا سامنا نہیں ہے اگر حکومت کا یہ د عویٰ درست مان لیا جائے تو پھر اس وقت کیا وزیر اعظم قوم کو یہ جواب دے سکتے ہیں کہ روز مرہ ضرورت کی اشیا کیوں مہنگی فروخت کی جاری ہیں، ہول سیلر سے لے کر ریٹلر تک کیوں پریشانی کا شکار ہیں، چینی اس وقت بھی مارکیٹ میں 90 روپے کلو فروخت کی جاری ہے۔ اگر سبزیوں کی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو ان کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
کارخانے فیکٹری مالکان اس وقت بھی پریشانی کا شکار ہیں کوئی بھی کاروباری طبقہ ہو یا عوام اس وقت ریلیف سے محروم ہیں۔ ملک کو قرض سے نجات دلانے آئی ایم ایف پر لعنت بھیجنے کے تمام تر دعوے دم توڑ گئے، کرپشن کا بیانیہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ بیرونی ممالک ناجائز اثاثے لوٹی گئی دولت کی ملک میں واپسی، کرپشن فری پاکستان، ریاست مدینہ کی طرز کا پاکستان سب کچھ اختتام پزیر ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اقتدار سے پہلے کی اور اقتدار کے بعد کی تحریک انصاف میں واضح فرق اور بیانیہ میں واضح تضاد نظر آتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اس قوم کو تبدیلی، کرپشن اور غیر جانبدار احتساب کے نام پر جو دھوکا دیا گیا جس طرح اس قوم کی اُمیدوں پر پانی پھیرا گیا وہ یہ قوم اگلے عام انتخابات میں ضرور یاد رکھے گی۔ احتساب اپنی ذات اپنی جماعت سے شروع کرنے کا دعویٰ اور پھر اپنی جماعت کے کرپٹ نااہل لوگوں کو کابینہ میں شامل کرنا اور اسی طرح اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے وہ کرپٹ نااہل مخالفین جن کو خان صاحب چور ڈاکو جرائم پیشہ کہہ کر خان صاحب اس قوم کا خون گرماتے تھے آج اُن ہی کی بے ساکھیوں کے سہارے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں کیا یہ خان صاحب کے بیانیے میں تضاد نہیں، پھر خان صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے، عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لانے احتساب اپنی ذات سے شروع کرنے، کرپشن کا خاتمہ کرنے اور آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کے جو دعویٰ کیے تھے اُن پر یوٹرن لے کر کیا خان صاحب صادق و امین رہے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب خان صاحب کو اس قوم کو ہر صورت دینا ہے ملکی معیشت میں بہتری کو بھینسوں کے رحم وکرم پر ڈال کر نیا پاکستان بنانے کی انوکھی روایت قائم کی گئی ہے۔
یقینا ملکی معیشت کی بہتری کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات ہی سے شروعات کی جاتی ہے مگر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُس وقت ہی کامیاب ہوتے ہیں جب ملک میں عوامی مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ روٹی کپڑا مکان کی سہولت کے بغیر معیشت کی بہتری ممکن نہیں جب قوم روٹی کی فکر سے آزاد ہوگی تو ہی ملک کی معیشت کو مضبوط مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے گی۔ اس وقت یہ قوم مستقل بنیادوں پر مہنگائی سے مکمل ریلیف کی خواہش مند ہے اس قوم کو معیشت کی بہتری کے لیے بھینسوں کے پیچھے لگا کر ایک اور دھوکا نہ دیا جائے۔ جس قوم کے حکمران قیمتی محلوں، قیمتی گاڑیوں، بیرون ملک قیمتی اثاثوں کے مالک ہوں اُس قوم کو معیشت کی بہتری کے لیے بھینسوں کے پیچھے لگانا کیا مناسب ہوگا۔ اگر اس کو تبدیلی کا نام دیا جارہا ہے تو واقع یہ تبدیلی ہے جو ستر برس میں پہلی بار آئی ہے کہ پاکستان آگے جانے کے بجائے پیچھے جارہا ہے ہم چاٹر طیاروں بلٹ ٹرینوں پر سفر کرنے کے بجائے بھینسوں پر سفر کرنے کی جانب گامزن ہورہے ہیں اندازہ لگا لیجیے جس ملک کی ٹرینیں حادثات سے محفوظ نہیں رہیں وہ قوم بھینسوں پر ہی سفر کرنے پر مجبور ہوگی۔۔۔۔