کورونا وائرس، انتظام اور اعصاب کا امتحان

273

تین ماہ قبل چین میں نمودار ہونے والے کورونا وائرس نے ایک عالمی غارت گر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ چین میں اس وائرس کی آمد نے یکایک خوف اور دہشت کی فضاء قائم کردی۔ یہ وائرس سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر نظام تنفس اور نظام ہضم کو تباہ کر دیتا ہے۔ چین میں اس وائرس کے باعث جہاں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں وہیں بہت بڑی تعداد صحت یاب ہونے والوں کی بھی ہے۔ اس وقت تک دنیا بھر میں اس مرض کا شکار افراد کی تعداد چوراسی ہزار بتائی جاتی ہے جن میں مرنے والوں کی تعداد اٹھائیس سو ہے۔ اموات کا شکار ہونے والوں میں اکثریت قوت مدافعت سے محروم بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ چین نے اس وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی ہے اور راتوں رات کرونا کے مریضوں کے لیے خصوصی اسپتال تعمیر کیے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے ملکوں نے چین میں زیر تعلیم طلبہ اور کارکنوں کو ہنگامی بنیادوں پر چین سے نکال لیا۔ کورونا وائرس کے باعث متاثر ہونے والوں میں چند پاکستانی طلبہ بھی شامل تھے۔ پاکستانی طلبہ کو چین میں محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا گیا اور متاثرہ مریضوں کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ کورونا وائرس کا ظہور چین میں ہوا اور اب اس ست زیادہ متاثرہ ملکوں میں اٹلی جاپان، جنوبی کوریا اور ایران شامل ہیں۔ وائرس کے ظہور اور پھیلائو کی وجوہات کے بارے میں ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘ کا محاورہ صادق آتا ہے مگر حقیقت ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ ایک رائے ہے کہ کتے بلیوں اور چمگادڑوں سمیت حشرات الارض کو کھانے سے اس وائرس نے جنم لیا ہے۔ جس پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ یہ خوراک تو صدیوں سے چینی ثقافت کا حصہ ہے۔ ایسا نہیں کہ چند برس سے چین میں یہ کام شروع ہوا ہو۔ ایک رائے میں اسے کسی مخالف ملک کا حیاتیاتی حملہ بھی کہا گیا اور ایسا کہنے والوں کا روئے سخن امریکا کی جانب ہوتا ہے کیونکہ چین اور امریکا کے درمیان دفاعی اور تجارتی جنگ زوروں پر ہے اور دونوں عالمی میدان میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں مگن ہیں۔ یہ رائے ہر گزرتے دن کے ساتھ تقویت اختیار کر تی جا رہی ہے۔ خود چین کی طرف سے غیر سرکاری طور پر جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں ان میں نقشِ قدم امریکا تک جاتا ہے۔ گویا کہ امریکا اور چین کی مسابقت نے اب اس انداز کی انتہائی شکل اختیار کر لی ہے۔
چین نے جس خاموشی کے ساتھ مختصر عرصے میں امریکا کو اقتصادی میدان میں چیلنج کیا ہے وہ بلاشبہ امریکا کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ امریکا ہر ممکن انداز سے اس کا توڑ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ چین کے اقتصادی اُبھار نے اس کے لیے دفاعی اور سیاسی کامیابیوں کے نئے در وا کیے ہیں اور یوں امریکا جہاں اقتصادی میدان میں چین پر ضرب لگانے کے لیے بے چین ہوتا ہے وہیں چین کے گرد گھیرا تنگ کر نے کی تدابیر بھی ہمہ وقت کرتا رہتا ہے۔ امریکا چین مخالف ملکوں بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایک حصار تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جنوبی چین کے جزیروں پر دونوں ملک آمنے سامنے کھڑے ہیں اور سی پیک چین کے دفاعی اور اقتصادی گھیرے کی کوشش کو ناکام بنانے کا باعث ہے اسی لیے امریکا پاک چین اقتصادی راہداری کے درپہ رہا ہے اور اس منصوبے کو طاقت سے روکنے کے لیے برسوں سے کوششیں کیے جارہا ہے۔ گوکہ اب یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرچکا ہے مگر امریکا کو اب بھی امید ہے کہ وہ پاکستان پر دبائو ڈال کریا مختلف ترغیبات کے ذریعے اس منصوبے کو بے اثر کر سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا بالخصوص اور ایشیائی ملکوں میں بالعموم اقتدار کی زیادہ تر رسہ کشیوں اور انقلابات کا تعلق چین اور امریکا میں جاری کشمکش سے ہے۔ امریکا جنوبی ایشیائی ملکوں میں چین کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والی سیاسی قوتوں کو پیچھے دھکیل کر اپنے قریبی لوگوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ کہیں یہ کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں اور کہیں امریکی خواہشات ادھوری ہی رہ جاتی ہیں۔ مخاصمت کے اس ماحول میں حیاتیاتی حملے کی تھیوری زور پکڑ رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ چین کسی مرحلے پر کھل کر سرکاری سطح پر یہ ماجرا بیان کردے۔
کورونا وائرس اب چین سے نکل کر ایران اور دوسرے ملکوں میں پہنچ گیا ہے اور ایران کے راستے پاکستان میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ گوکہ ابھی متاثرین کے تعداد تین ہے مگر خطرے کی گھنٹی بج اُٹھی ہے۔ کرونا وائرس کی باعث ایران اور عراق میں زائرین کے داخلے پر عارضی طور پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ سعودی حکومت نے بھی حفاظتی تدبیر کے تحت عمرے پر عارضی طور پرپابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان نے ایران سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کررکھی ہے اور باہر سے آنے والوں کی اسکریننگ کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ کئی شہروں کے اسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈ قائم کر دیے گئے ہیں۔ متاثرہ دونوں مریضوں کی صحت بہتر ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ خوف کے باعث عالمی منڈیاں مندی کا شکار ہو رہی ہیں اور تیل کی قیمتیں گر گئی ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث ہمارے ہاں بھی خوف کے سائے لہرا رہے ہیں۔ ایسے میں حکومتوں کی ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے۔ ہم اس وبائی مرض سے آنکھیں چرانے یا لمحہ بھر کو غافل ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے پاس عام امراض کے لیے وسائل کم ہیں اور اگر خدا نخواستہ کسی غفلت کے باعث یہ مرض یہاں پھیل گیا تو ہمارا ناکارہ سسٹم اس چیلنج سے عہدہ برا نہیں ہو سکے گا جس سے المیے جنم لیں گے۔ اس سے پہلے ہی حکومتوں اور متعلقہ اتھارٹیز کو کرونا وائرس کے مقابلے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ اچھا تو یہ ہے کہ اس مرض کو پاکستان میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے اور اگرایسی کوئی صورت ہوتی ہے تو پھر مقابلے کی تیاری بھی پوری قوت سے ہونی چاہیے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے افواہیں پھیلا کر خوف ودہشت پید ا کرنے والوں پر بھی اس حوالے سے کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ایسے لوگوں کا مقصد معاشرے میں بے چینی، خوف اور ہیجان پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ عوام کو اس معاملے میں مضبوط اعصابی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بلاوجہ کسی خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ حکومتوں کو بھی میڈیا کے ذریعے عوام کو حفاظتی تدابیر کے ساتھ ساتھ حواس پر قابو رکھنے کی تلقین کرتے رہنا چاہیے۔