عورت نے ہر ایک دور میں قوموں کو نکھارا (آخر حصہ)

252

قدسیہ ملک
آغا خان ہسپتال کے زیراہتمام منعقدہ تین روزہ قومی صحت و سائنس سیپوزیم سے خطاب میں ڈاکٹر تزئین سعید علی نے کہا ہے کہ گھریلو تشدد کے باعث عورت کی طبعی اور ذہنی کیفیت مکمل یا جزوی طور پر شدید متاثر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ مشہور ابلاغی محقق ڈاکٹر نثار احمد زبیری اپنی کتاب ابلاغ عامہ افکار و نظریات میں لکھتے ہیں ذرائع ابلاغ عامہ اور خاص طور پر ٹیلی ویژن اور فلمیں تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہیں کہ ناظرین کو کوئی کام دکھا کر انہیں وہ کام کرنا سکھا دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک مشہور تحقیق سماجی محقق نیل ملر (Neal Miller) اور جان ڈولر (John Dollard) نے کی ہے۔ انہوں نے مشاہداتی آموزش کا نظریہ (Learning by Oberservation theory) پیش کیا جس میں اسے دیکھنے اور عمل کرنے کے نظریے کو واضح کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جتنا گہرا مشاہدہ ہوگا۔ اتنا تیزی سے عمل ہوگا۔ اس ضمن میں انہوں نے چند نکات پیش کیے۔ 1۔ جب پیغام میں دیکھنے کے لیے کچھ واضح طور پر موجود ہو۔ 2۔ جب مشاہدہ کرنے والے اپنے طور پر سیکھی ہوئی بات بیان کریں یا اس پر عمل کر کے دکھائیں۔ 3۔ پیغام متاثر اسی وقت ہوگا جب سیکھی ہوئی بات پر عمل کر کے دکھایا جائے۔ اب ہم پاکستانی معاشرے پر اس نظریے کی روشنی سے دیکھیں تو مقصد صاف واضح ہوجاتا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرونک میڈیا اور بالعموم پرنٹ و سوشل میڈیا پر کی جانے والی ہر فعل و عمل کا تعلق اسی نظریے کی روشنی میں جانچنے کی چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ ان ڈراموں فلموں میں مجرم جرائم اور مجرمانہ ذہنیت کا پرچار جس تواتر سے ہوتا ہے ایک عام فرد کے نزدیک اس پر عمل کرنے کی قوت میں اسی قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے جرم کی داستان، کرائم رپورٹنگ وغیرہ جیسے ڈرامے تواتر سے چینلوں پر نشر کیے جاتے ہیں۔
2۔ ہمارے پاکستانی ٹی وی چینلوں میں عورت کے لباس کو مختصر کرتے کرتے اتنا مختصر کیا جاچکا ہے۔ ان ڈراموں کی بدولت پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی معاشرے کے ہر طبقے ہر گروہ میں واضح دیکھی جاسکتی ہے۔
3۔ خاندانی نظام کو منتشر کرنا اور اس کا شیرازہ بکھیرنا ایک پاکستانی ڈرامے میں معمولی بات بن چکی ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں ہر شوہر کسی اور عورت سے اور ہر بیوی کسی اور مرد کو اپنے شوہر سے زیادہ اپنے دکھ درد کا ساتھی سمجھتی ہے۔
4۔ پاکستانی نیوز چینل پر ہونے والے قومی و بین الاقوامی مباحثوں میں بھی جو زبان سیاستدان اور بیوروکریٹ استعمال کرتے ہیں۔ وہی زبان عمومی طور پر عوام میں اپنا اثردکھا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی انحطاط و اخلاقی گراوٹ کا شکار ہورہا ہے۔
5۔ زندگی میں صرف عیش و آرام اور بقول بابر، بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق ’’کھا لے پی لے جی لے‘‘ کی تکرار کے باعث خوف آخرت رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہاہے۔
6۔ ڈراموں میں خاندانی رشتوں سے نفرت اور ددھیالی سسرالی رشتوں سے بے تحاشا نفرت دکھائی جاتی ہے جس کے سبب ون یونٹ فیملی کا تصور عام ہوگیا ہے۔ جس کی توجیہہ کے لیے اسلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔
7۔ ان ڈراموں میں رشوت، سفارش، جھوٹ، لالچ، دھوکا، فریب، مکاری کو مصلحت کے پردے میں لپیٹ کر اتنا خوشنما خوب صورت بناکر دکھایا جاتا ہے کہ عوام الناس کے نزدیک ان افعال میں گناہ کا تصور قدرے کم ہوگیا۔ اب لوگوں کے نزدیک مصلحت کے تحت ان سب کاموں کی ادائیگی باآسانی ہوجاتی ہے جس سے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
8۔ شراب نوشی و جوا اور مختلف منشیات کا استعمال دکھا کر ان پاکستانی ڈراموں میں ان تمام جرائم و گناہ کی طرف ہونے والی جھجھک تقریباً ختم کردی گئی ہے۔
9۔ عورت کی آزادی اور حقوق نسواں کا نعرہ لگا کر عورت کو ایک سازش کے تحت اس کے قلعے، مضبوط حصار یعنی گھر سے نکال کر شمع محفل بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ ہر ڈرامے میں آفس لیڈی، جاب کرنے والی لڑکی یا اپنے فرائض کو یکسر نظرانداز کرتی خواتین کا کردار اسی سازش کی چند کڑیاں ہیں۔
ان پاکستانی ڈراموں میں سے چند انکار، باغی، تیری رضا، محبت تجھ سے نفرت ہے، صلہ ڈر سی جاتی ہے، کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی، چیونگم، اڈاری، میں ماں نہیں بننا چاہتی، میرے پاس تم ہو، بیگانگی، جھوٹی، دیوانگی، آتش، دوبول، رسوائی، اور پاکستان میں کروڑوں کا بزنس کرنے والی انڈین فلمیں شامل ہیں۔
ان تمام حقائق آپ کے سامنے دہرانے یا آشکار کرنے کا مقصد کسی خاص گروہ یا پارٹی کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں۔ بلکہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کی جانی والی تجزیاتی رپورٹ بنانے کا واحد مقصد عوام کو کسی بھولے سبق کی یاددہانی، کسی مقصد کی جانب توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے۔ ہمیں لوگوں کو اس بات کی آگہی دینی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے پاس جینے کا ایک واضح مقصد موجود ہے۔ یہ یہود نصاریٰ کی ترجمانی کرنے والے الیکٹرونک میڈیا مالکان سوائے چند ایک کہ یہود کی خوشنودی کی خاطر معاشرے کو اخلاقی گراوٹ کا اس حد تک شکار کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر رشتوں کا تقدس محبت، اخوت، باہمی الفت اور باہمی احترام، خونی رشتوں سے پیار کی تمام کیفیات یکسر ختم ہو جائیں۔ اور وہی مادر پدر آزاد یورپی معاشرہ بن جائے۔ جس سے آج ایک مغربی عورت خود پریشان اور اضطراب کا شکار ہے۔ آج مغربی معاشرے سے خاندان کا تصور کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ جس کے لیے اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ہمیں اس ناپیدار معاشرے کی زہریلی ہوا سے اپنے پاک معاشرے کو بچانے کے لیے لوگوں میں آگہی پیدا کرنی ہے۔ لوگوں کو بیدار کرنا ہے۔ اسلام کی روح اور اس کی اصل سے رائے عامہ میں آگہی پیدا کرنی ہے۔ خاندان کو انتشار سے بچانا ہے۔ ہر فرد کو اپنے حصے کاکام بھرپور انداز میں کرنا ہے۔ اپنے فرائض کی آگہی کو اولین ترجیح دینی ہے۔ اپنے حصے کی شمع اپنے ہاتھوں سے روشن کرنی ہے۔ اپنی صفوں کو منظم کرنا ہے۔ اپنے پاکستانی معاشرے کے مثبت پہلوؤں سے دنیا کو روشناس کروانا ہے۔ اپنے خاندانوں کی باہمی اخوت کی ڈور سے مضبوط کرنا ہے۔ ہم عورتیں ہی قوموں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ ہم ہی وہ عورتیں ہیں جنہوں نے ہر دور میں اقوام کو مایوسیوں کی دلدل سے نکالا ہے۔ اقوام عالم میں ملک کا وقار بلند کیا ہے۔ آج بھی اگر ہم عورتیں اپنے محاذ پر ڈٹ کر کھڑی ہوجائیں تو کوئی ہماری صفوں میں گھس کر ہمارے خاندانوں خراب نہیں کرسکتا۔ اب ہمیں اپنے محاذ کا خود دفاع کرنا ہے۔ ورنہ اس پاکستانی معاشرے کی شیرازہ بندی کے لیے تمام مورچے تیار اور تمام نیزے کسے جاچکے ہیں۔ بقول شاعر
اٹھو وگرنہ حشر بپا ہوگا نہ پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا