بچوں سے زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی

407

سینیٹ نے زینب الرٹ بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے اور اس میں جماعت اسلامی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوںکی ترامیم کو خاطر میں نہیںلایا گیا ۔ جماعت اسلامی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کا حکومت سے زینب الرٹ بل میں صرف ایک ہی اختلاف تھا اور وہ یہ کہ یہ جماعتیں چاہتی ہیں کہ زیادتی اور قتل کے مجرموں کو موت کی سزا دی جائے ۔ عمران خان نیازی کی حکومت کا رویہ بالکل اقوام متحدہ والا ہے کہ جو بھی ظلم اور زیادتی کرے ، اسے اتنی ہی عزت و اکرام دیاجائے ۔ قتل کی سزا تو پاکستانی قوانین میں پہلے ہی پھانسی ہے تو پھر اس کا اطلاق زیادتی کے جرم میں کیوں نہ کیا جائے ۔ زنا بالرضا بھی اتنا بھیانک جرم ہے کہ اللہ نے اس کی سزا سنگ باری سے موت مقرر کی ہے ۔ کسی کے ساتھ زبردستی ور پھر وہ بھی معصوم بچوں کے ساتھ ، اس صورت میں تو اس کی سنگینی کئی گنا اور بڑھ جاتی ہے ۔ حکومت میں شامل جغادری آخر چاہتے کیا ہیں ۔ کیا وہ چاہتے ہیں کی اسی طرح معصوم کلیاں کچلی جاتی رہیں اور ان کے مجرم یوں ہی مونچھوں پر تاؤ دے کر آزاد گھومتے رہیں ۔ زیادہ دنوں پرانی بات نہیں ہے کہ سہون میں ایک جج صاحب نے ایک خاتون کے ساتھ اپنے چیمبر میں زیادتی کر ڈالی ۔ اس کیس کا بھی وہی حال کیا گیا جو ایسے تمام کیسوں کا کیا جاتا ہے جس میں بااثرافراد شامل ہوں ۔ یعنی وقت گزارا جائے اور مدعی کو اتنا تھکا مارا جائے کہ وہ خود ہی کیس کی پیروی سے کان پکڑ لے ۔ کوئٹہ کی تو وڈیو بھی موجود تھی جس میں شراب کے نشے میں دھت ایک وزیر صاحب نے سگنل پر ٹریفک پولیس کے اہلکار کو کچل کر ہلاک کردیا تھا۔ وہ بھی بری کردیے گئے ۔ اس سے ملک میں انصاف کی فراہمی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس پر بھی اشرافیہ کا اصرار ہے کہ زیادتی کے مجرموں کو موت کی سزا نہ دی جائے جسے ناقابل فہم ہی کہا جاسکتا ہے ۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے کہا کہ ابھی تو بل منظور ہونے دیا جائے ، اس میں ترمیم بعد میں کرلی جائے گی ۔ سینیٹ کے چیئرمین بتائیں کہ جب قانون بننے کے دوران اس میں ترمیم نہیں کی جاسکتی تو بعد میں کس طرح سے اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت بچوں سے زیادتی اور قتل کی وارداتوں کو روکنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کام کو فروغ دینا چاہتی ہے۔