امریکا اور بھارت….اصل میں دونوں ایک ہیں

285

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر آئے اور آگ لگا کر چلے گئے۔ آگ اِن معنوں میں کہ انہوں نے بھرے جلسے میں پاکستان کی تعریف کردی اور عمران خان کو اپنا دوست قرار دے دیا لیکن یہ منافقانہ تعریف دہلی کے مسلمانوں کو مہنگی پڑ گئی۔ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈوں نے پاکستان کے خلاف بھڑاس دہلی کے مسلمانوں پر حملہ کرکے نکالی۔ ان کی مسجدیں مسمار کردی گئیں، ان کے کاروبار، دکانیں اور تجارتی مراکز تباہ کردیے گئے اور انہیں خاک و خون میں نہلادیا گیا۔ دہلی میں وہی منظر پھر دہرایا گیا جو 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے وقت برپا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس وقت مسلمان دہلی میں اکثریت میں تھے لیکن وہ اپنا دفاع نہ کرسکے اور ہندوئوں کے منظم اور مسلح جتھوں نے انہیں گھر سے بے گھر ہونے اور سب کچھ چھوڑ کر پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ شاہد احمد دہلوی مرحوم نے خونِ دل میں قلم ڈبو کر ’’دلّی کی بیتا‘‘ لکھی ہے لیکن اب دہلی پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس پر تو کوئی بھی قلم اُٹھانے والا نہیں ہے۔ دہلی جو کبھی اپنی تہذیب اور اپنے ادیبوں اور شاعروں کے جم غفیر سے پہچانا جاتا تھا اب متعصب ہندوئوں اور غنڈوں کا شہر بن گیا ہے جس میں ہندو اسّی فی صد اور مسلمان بمشکل پندرہ فی صد ہیں، جب کہ پانچ فی صد سکھ اور عیسائی بھی اس شہر میں آباد ہیں لیکن اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی پورے شہر پر چھاپ ہے۔ سڑکیں اور محلے مسلمانوں سے منسوب ہیں، دہلی کے تمام تاریخی آثار کا تعلق مسلمانوں سے ہے، اس لیے میر تقی میرؔ نے کہا تھا:
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اس اجڑے دیار کے
اس شہر کے مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے، ان کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور اب تو مسلم کش فسادات دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئے ہیں لیکن مودی سرکار زیرِلب مسکرا رہی ہے کہ اس کی دلی تمنا بر آئی ہے اور مسلمانوں کو شہریت بل کے ذریعے بے دخل کرنے کے بجائے ان کا صفایا کرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
اِن ہولناک فسادات پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، البتہ امریکا نے مگرمچھ کے آنسو بہائے ہیں، او آئی سی نے دبے لفظوں میں فسادات کی مذمت کی ہے اور ظالم اور مظلوم دونوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ مل جل کر رہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک بھارت کی ناراضی سے خائف ہیں اور وہ اس کے خلاف کوئی سخت بیان نہیں دینا چاہتے۔ تاہم پاکستان کے علاوہ ترکی نے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو چُن چُن کر قتل کیا جارہا ہے، اس قتل عام کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ عالمی برادری سے مراد اقوام متحدہ کی نمائندہ تنظیم ہے اور اقوام متحدہ کی نکیل امریکا کے ہاتھ میں ہے جو مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کے معاملے میں شدید منافقت کا شکار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جہاں بھارت میں کھڑے ہو کر پاکستان کی تعریف کی ہے وہیں اپنے دورے کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں کی سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہ دے۔ مشترکہ اعلانیہ میں داعش، القاعدہ، حقانی نیٹ ورک، طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کا بوجھ بھی پاکستان پر ڈال دیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان ان گروپوں سے وابستہ افراد کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے۔ ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کو مدت گزر گئی بھارت ان حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکا بلکہ خود بھارت کے اندر سے بھیدیوں نے یہ گواہی دی کہ یہ دونوں حملے بھارت کے اپنے منصوبے تھے جن کا مقصد عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا اور اسے ایک دہشت گرد ملک ثابت کرنا تھا۔ اس کام میں امریکا نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ اب صدر ٹرمپ کے دورے کے موقع پر بھارت نے ان حملوں کا پھر راگ الاپا ہے اور مشترکہ اعلامیہ میں امریکا نے اس کی ہمنوائی کی ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت، امریکا مشترکہ اعلامیہ پاکستان کے خلاف کھلی چارج شیٹ ہے لیکن ہم پاکستان کے حق میں صدر ٹرمپ کے چند منافقانہ جملے سن کر نہال ہوئے جارہے ہیں۔
بھارت میں صدیوں سے آباد بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کا وجود اِس وقت شدید خطرے سے دوچار ہے، انہیں متنازع شہریت بل کے ذریعے بے گھر کرنے اور ملک سے نکالنے کا منصوبہ تو بنایا ہی گیا ہے اور مودی سرکار اس پر کوئی دبائو یا احتجاج قبول کرنے کو تیار نہیں ہے جب کہ اس کے علی الرغم بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور دیگر انتہا پسند ہندو جتھے مسلمانوں کا صفایا کرنے پر تُل گئے ہیں۔ صرف دہلی کے مسلمان ہی ان کا ٹارگٹ نہیں دیگر شہروں سے بھی فسادات کی خبریں آرہی ہیں۔ عالمی میڈیا نے بھی اس اندوہناک صورتِ حال پر توجہ دی ہے اور بھارت میں جاری فسادات کی خبریں تواتر کے ساتھ عالمی میڈیا میں شائع ہورہی ہیں۔ خود انصاف پسند ہندو دانشور بھی مودی سرکار کے متعصبانہ طرزِ عمل پر شدید تنقید کررہے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے کسی کی پروا نہیں۔ امریکا مودی کا ہاتھ روک سکتا تھا لیکن وہ خود افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمانوں کا قاتل ہے اسے بھارت میں مسلم کش فسادات پر کیا تشویش ہوسکتی ہے؟ اگر کچھ توقع ہوسکتی تھی تو مسلمان ملکوں سے لیکن وہ پہلے ہی بکری بنے ہوئے ہیں۔ اندریں حالات ہمیں برصغیر میں ایک اور المیے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیا خبر یہ المیہ خطے کی ہئیت ہی بدل کر رکھ دے۔