پاکستان کے حکمرانوں اور صحافت کی ’’آئیڈیالوجی‘‘

602

لوگ کہتے ہیں پاکستان کے حکمرانوں اور پاکستان کی صحافت کی کوئی ’’Ideology‘‘ نہیں ہے۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے اور پاکستان کی صحافت کی ایک کیا کئی ’’Ideologies‘‘ ہیں۔ مثلاً ان کی ایک Ideology ’’جھوٹ ہے‘‘۔ دوسری Ideology ’’فریب‘‘ ہے۔ تیسری ’’Ideology‘‘آنکھ میں دھول جھونکنا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ ہندوستان ہے۔ ذرا دیکھیے تو اس دورے کے حوالے سے عمران خان نے کیا کہا۔ انہوں نے فرمایا۔
’’ٹرمپ کا پاکستانی کوششوں کا اعتراف پاکستان کی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس 26فروری 2020ء)
فردوس عاشق اعوان نے قوم کو اطلاع دی۔
’’مودی ٹرمپ سے پاکستان مخالف بیان دلوانے میں ناکام رہا‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس 26 فروری 2020ء)
عمران خان کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود گویا ہوئے۔
’’کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پاکستان کی کامیابی ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ 26 فروری 2020ء)
اس سلسلے میں پاکستان کے اخبارات نے بھی ’’کمالات‘‘ کی حد کردی۔ روزنامہ جنگ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت میں خطاب سے شہ سرخی نکالی۔
’’پاکستان دوست‘ دہشت گردی کے خلاف کردار مثبت‘‘۔
اس شہ سرخی کی ذیلی سرخیاں یہ تھیں۔
پاک امریکا تعلقات میں بڑی پیشرفت کے آثار دیکھتا ہوں۔
خطے میں کشیدگی کم ہوگی۔
سرحدوں کا تحفظ ہر ملک کا حق
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 25 فروری 2020ء)
“Trump tells India Ties with Pakistan are very good”
(The News Karachi-25 February 2020)
روزنامہ ڈان کراچی کی شہ سرخی اور ذیلی اس طرح تھی۔
“Trump Praises Pakistan in India”
Says washington’s relationships with Islamabad is good one”
(Dawn Karachi 25 February 2020)
روزنامہ ایکسپریس کی شہ سرخی یہ تھی۔
’’پاکستان دہشت گردی کے خلاف ٹھیک جارہا ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ‘‘
روزنامہ دنیا نے اس سلسلے میں جو پانچ کالم کی ذیلی سرخی نکالی وہ یہ تھی۔
’’پاکستان کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات، مثبت انداز میں کام کررہے ہیں۔ امریکی صدر کی تقریر بھارتیوں پر بجلی بن کر گری‘‘۔
عمران خان، فردوس عاشق اعوان اور شفقت محمود کے بیانات اور پاکستان کے پانچ بڑے اخبارات کی شہ سرخیوں کا ’’تاثر‘‘ یہ ہے کہ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے بھارت کو بھارت میں ’’فتح‘‘ کرادیا۔ بدقسمتی سے یہ جھوٹ بھی ہے، مکر بھی ہے، فریب بھی ہے، دھوکا بھی ہے، عیاری بھی ہے، مکاری بھی ہے، خلاف حقیقت بات بھی ہے۔
حقیقت کیا ہے یہ جاننے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کو پڑھ لینا کافی ہے۔ اس اعلامیے میں ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کو بھارت کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ مشترکہ اعلامیے میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو سزا دے۔ مشترکہ اعلامیے میں پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ حزب المجاہدین، حقانی نیٹ ورک، القاعدہ، جیش محمد، لشکر طیبہ، ٹی ٹی پی، آئی ایس آئی ایس اور ڈی کمپنی کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ (دی نیوز کراچی۔ 26 فروری 2020ء)
پاکستان کے حکمران اور پاکستان کی صحافت ’’فرما‘‘ رہی ہے کہ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے بھارت کو ’’فتح‘‘ کرلیا ہے مگر امریکا اور بھارت کا مذکورہ بالا مشترکہ اعلامیہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بھارت ہی نہیں امریکا بھی پاکستان کو ’’دہشت گرد ملک‘‘ سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان نے اپنے یہاں دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت ایسا نہ سمجھتے تو وہ مشترکہ اعلامیے میں پاکستان سے یہ مطالبہ نہ کرتے کہ وہ ممبئی اور پٹھان کوٹ کے واقعات کے ذمے داروں کو سزا دے۔ مشترکہ اعلامیہ میں صرف القاعدہ اور ٹی ٹی پی کو دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا بلکہ مقبوضہ کشمیر کی سب سے بڑی مزاحمتی تنظیم حزب المجاہدین کو بھی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ کیا حزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا جانا پاکستان کی ’’فتح‘‘ ہے؟ کیا اس اعلان کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی ناک توڑ دی ہے یا پاکستان کے دل پر گھونسہ مارا ہے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ داعش یا ISIS کو امریکا نے تخلیق کیا ہے۔ یہ بات ہیلری کلنٹن کہہ چکی ہیں۔ افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا پٹھو حامد کرزئی کہہ چکا ہے۔ روس کہہ چکا ہے مگر امریکا بھارت کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ تمہارے یہاں تو داعش بھی پائی جاتی ہے۔ یہ ہے پاکستان کے حکمرانوں اور صحافت کا جھوٹ۔ یہ ہے پاکستان کے حکمرانوں اور صحافت کا فریب۔ یہ ہے پاکستان کے حکمرانوں اور صحافت کی عیاری اور مکاری۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے احمد آباد کے کرکٹ اسٹیڈیم میں جو تقریر کی وہ بھارت کے نام امریکا کے ’’Love Letter‘‘ سے کم نہیں۔ اس ’’لولیٹر‘‘ کے کچھ حصوں کا ترجمہ یہ ہے۔
’’بھارت ایک ایسا ملک ہے جو آزادی، فرد کے حقوق، قانون کی بالادستی اور انسان کے وقار کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ (روزنامہ ڈان) بھارت ’’انسانیت‘‘ کی ’’اُمید‘‘ ہے۔ بھارت کی کہانی ترقی کی حیرت انگیز داستان ہے۔ میں بھارت کے ہر شہری سے کہتا ہوں کہ اپنے شاندار ماضی پر فخر کرو اور روشن مستقبل کے لیے متحد ہوجائو۔ امریکا اور بھارت امن اور آزادی کے محافظ بن کر ساتھ کھڑے رہیں گے۔ میں آٹھ ہزار کلو میٹر سے آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ امریکا بھارت سے محبت کرتا ہے۔ امریکا بھارت کی تعظیم کرتا ہے۔ امریکا ہمیشہ بھارت کے شہریوں کا ’’وفادار‘‘ رہے گا۔ بھارت کا ہمارے دل میں ایک خاص مقام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف اہل گجرات کا فخر نہیں ہیں بلکہ آپ کی قیادت میں بھارتی کوئی بھی کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ (دی نیوز کراچی۔ 25 فروری 2020ء) ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت سے کہا کہ وہ خطے کو باہم مربوط کرنے کے لیے کام کرے۔ ٹرمپ نے کہا بھارت کو خطے کے مستقبل کی تشکیل کے سلسلے میں ’’قائدانہ کردار‘‘ ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو خطے میں مسائل کے حل اور قیام امن کی ذمے داریاں سنبھالنا ہوں گی۔ (ڈان کراچی۔ 25 فروری 2020ء)
ہم اس طویل ’’اقتباس‘‘ کے لیے معذرت چاہتے ہیں مگر اس کے بغیر یہ ثابت نہیں ہوسکتا تھا کہ ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کو بھارت کے نام امریکا کا ’’لولیٹر‘‘ کیوں قرار دیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکا کا صدر بھارت کے نام ’’لولیٹر‘‘ لکھ رہا ہے اور ہمارے حکمران اور ہماری صحافت پاکستانیوں کو یہ کہہ کر الّو بنارہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو بھارت میں پاکستان کی تعریفوں کی گنگا بہادی ہے۔
ذرا غور تو کیجیے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ’’لولیٹر‘‘ میں کیا کچھ کہا ہے کہ بھارت آزادی، فرد کے حقوق اور قانون کی بالادستی کی علامت ہے۔ خدا کی پناہ۔ بھارت 72 سال سے صرف کشمیریوں کی نہیں بھارتی مسلمانوں کی بھی آزادی سلب کیے ہوئے ہے۔ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے نہ کوئی ’’سیاسی حقوق‘‘ ہیں نہ کوئی ’’اقتصادی حقوق‘‘۔ یہاں تک کہ کشمیریوں اور بھارت کے مسلمانوں کو صرف زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ فرما رہے ہیں کہ بھارت آزادی، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کی علامت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بھارت ’’انسانیت‘‘ کی ’’امید‘‘ ہے۔ یہ بلاشبہ 21 ویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اس لیے کہ بھارت انسانیت کی اُمید نہیں انسانیت کی تین بڑی ’’مایوسیوں‘‘ میں سے ایک ہے۔ انسانیت کی ایک مایوسی امریکا ہے، دوسری مایوسی بھارت ہے، تیسری مایوسی اسرائیل ہے۔ امریکا کے صدر نے یہ بھی فرمایا کہ امریکا بھارت سے محبت کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت امریکا کی ’’محبوبہ‘‘ ہے؟ بھارت دوچار دس سال تک نہیں 50 سال تک امریکا کے دشمن سوویت یونین یعنی روس کا ’’اتحادی‘‘ رہا ہے۔ بھارت غیر وابستہ تحریک کا بانی اور رکن تھا اور یہ تحریک اپنی نہاد میں امریکا مخالف تھی۔ بھارت نے شدید دبائو کے باوجود کبھی امریکا اور یورپ کے سرمائے کے لیے اپنی منڈی نہیں کھولی۔ مگر اب امریکا کا صدر اسی بھارت کو بھارت میں کھڑا ہو کر ’’لولیٹر‘‘ لکھ رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں ملک کے حکمران اور ملک کے ’’بڑے اخبارات‘‘ قوم کو بتارہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت میں کھڑے ہو کر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے ہی والے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں صاف کہا ہے کہ بھارت کو خطے میں ’’قائدانہ کردار‘‘ ادا کرنا چاہیے۔ اس بات کا مفہوم عیاں ہے۔ امریکا بھارت کو ’’علاقے کا غنڈہ‘‘ بنانا چاہتا ہے۔ امریکی کئی سال سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کو ’’سمجھا‘‘ رہے ہیں کہ بھارت بڑا ملک ہے۔ مستقبل کی بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے۔ چناں چہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ بن کر رہے۔ ویسا ہی ’’چھوٹا‘‘ جیسے کہ ورکشاپس پر بہت سے ’’چھوٹے‘‘ ہوتے ہیں۔ ان ورکشاپس پر مستری چلاتا ہے، ’’چھوٹے ذرا پانا تو لانا‘‘ اور ’’چھوٹا‘‘ دوڑ کر اپنے ’’مالک‘‘ کے لیے پانا لاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو علاقے کا ’’بڑا‘‘ اور پاکستان کو بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ بنارہا ہے اور ہمارے حکمران اور بڑے اخبارات پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ امریکا کے صدر نے بھارت میں پاکستان کی تعریف کرکے بھارت کو چڑا دیا۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف میں جو ڈیڑھ دو فقرے کہے ہیں وہ اسی لیے کہے ہیں کہ پاکستان کے حکمران افغانستان سے امریکا کو باعزت طور پر نکلنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ یہ مرحلہ گزرنے دیں امریکا پاکستان کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں کہے گا۔