28فروری کو ایک طویل جاں گسل اور صبر آزما کوششوں کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی دستخطی تقریب دوحہ قطر میں منعقد ہو ہی گئی امریکا کے لیے جہاں یہ امتحان تھا کہ ایک زمانے میں وہ طالبان کو دہشت گرد کہتا تھا اور کسی بھی طرف سے آئی ہوئی مذاکرات کی تجویز کو یہ کہہ کر رد کردیتا کہ دہشت گردوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ لیکن پھر اسی امریکا کو ان دہشت گردوں کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے کس کس در پہ سر نہ ٹیکنا پڑا ہو کہاں کہاں خوشامد نہ کرنا پڑی ہو اور کس کس ملک سے اس حوالے سے پیار و محبت کی پینگیں نہ بڑھائی گئی ہوں پاکستان اور قطر اس حوالے سے صف اول کے ممالک میں سے ہیں۔ امریکا کو یہ بات معلوم تھی کہ حکومت پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اس لیے پاکستان کی سفارتی کوششیں بار آور ثابت ہو سکتی ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ آج کے مذاکرات میں پاکستان کی کوششوں کا دخل ہے۔
عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کی ابتدا ہی سے افغان اشو پر ایک صاف اور واضح موقف اپنایا تھا جس پر وہ ابھی تک نہ صرف قائم ہیں بلکہ اسی بنیاد پر اپنی حکومت کی افغان پالیسی بھی ترتیب دی ہوئی ہے، پہلی بات جو وہ کہتے تھے اور آج بھی کہتے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے ہم نے دوسروں کی جنگ میں کود کر اپنا بہت نقصان کرلیا ہے، دوسری بات وہ کہتے تھے افغان مسئلے کا حل جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات میں ہے اور ایک نہ ایک دن دونوں متحارب فریقوں کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا اور وہی ہوا۔یہی موقف جماعت اسلامی سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا ہے۔ افغان جنگ میں افغانستان کے بعد پاکستان کا جانی و مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا ہے، امریکا کا دوہرا کردار جس کو ہم دوسرے الفاظ میں منافقانہ کردار بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف تو اس نے پاکستان کی راہداری استعمال کی ہمارے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کیا دوسری طرف نمائشی طالبان بنا کر اور ان کی سرپرستی کرکے پاکستان میں بم دھماکے کرائے گئے، ڈرون حملے کیے گئے، اسکول کے اندر سفاکانہ طریقے پر اہدافی قتل targe killing کرکے بچوں کو شہید کیا گیا، پاکستان نے بہت مشکل دور گزارا ہے اور اب امید کی جاتی ہے کہ ان مذاکرات کی کامیابی کا بینیفشری افغانستان کے بعد پاکستان ہو گا۔
مذاکرات کی کامیابی سے ہندوستان کو تفکرات لاحق ہو گئے ہیں اس لیے کہ بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کی منصوبہ بندی کی اور ایک چھوٹے سے ملک میں بھارت کے 14قونصلیٹ آفس بنائے جو زیادہ تر پاکستان کی سرحدوں کے قریب ہیں پھر اس نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اس لیے پہلا خدشہ تو یہی ہے ہندوستان اپنی مکارانہ چالوں کے ذریعے ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گا۔ بھارتی وزیر اعظم مودی جب امریکا گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستان آئے تو دونوں موقعوں پر مودی نے اور باتوں کی علاوہ یہی بات ٹرمپ کے سامنے رکھی کہ افغانستان میں پاکستان کو فری ہینڈ نہیں ملنا چاہیے۔ مذاکرات کی دستخطی تقریب سے کچھ دنوں پہلے طالبان کا ایک وفد پاکستان آیا اور اس نے 28فروری کی دستخطی تقریب پاکستان کو باقاعدہ شرکت کی دعوت دی اور ہمارے وزیر خارجہ اس میں شریک بھی ہوئے، جب ادھر طالبان کا وفد پاکستان آیا ہوا تھا تو دوسری طرف ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ افغانستان کے دورے پر تھے اور انہوں نے افغان حکمرانوں سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ اور اپنے سفارتی عملے کے تحفظ کے حوالے سے بات کی اور ان حکمرانوں سے کچھ یقین دہانیاں بھی حاصل کی ہوں گی، اور کوئی بعید نہیں کہ اپنے عیارانہ مشورے دیے ہوں مذاکرات کے دو گھنٹے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی کا یہ کہنا کہ ہم طالبان کے قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے ہاں اس پر انٹرا افغان مذاکرات میں بات ہو سکتی ہے کسی سازش کا پتا دیتی ہے، حالانکہ مذاکرات میں یہ بات طے ہو چکی تھی 10مارچ تک طالبان کے 5000 قیدی رہا کردیے جائیں گے۔
افغان وہ قوم ہے جس نے پچھلی تین صدیوں میں وقت کی تین بڑی قوتوں کو دھول چٹائی ہے اور ان تینوں قوتوں کو بھارت کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے، انیسویں صدی میں برطانیہ کا ایک ڈاکٹر اپنی فوج لے کر افغانستان فتح کرنے پہنچا اس وقت برصغیر برطانیہ کی نو آبادیات میں سے تھا اس لیے برطانیہ نے زیادہ تر فوجی کمک بھارت سے حاصل کی تھی پھر ایک طویل جنگ ہوئی اور افغانوں نے ان کے سارے فوجی مار دیے اور صرف ایک ڈاکٹر کو گدھے پر بیٹھا کے برطانوی حکمرانوں کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ اپنی شکست کی داستان سنا سکے۔ بیسویں صدی میں بڑی طاقت روس نے افغانستان پر حملہ کردیا اور پوری دنیا میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ تھوڑے عر صے بعد روس افغانستان کو فتح کرتے ہوئے پاکستان کے گرم ساحلوں تک پہنچ جائے گا اس وقت بھی بھارت روس کے ساتھ کھڑا تھا جب کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تھا۔ اس وقت دنیا کی بڑی طاقت روس کے بارے میں یہ رائے عام تھی کہ روس جہاں بھی گیا ہے وہاں سے واپس نہیں ہوا، لیکن افغان مجاہدین نے بغیر کسی جدید اسلحے کے حملہ آور فوجوں کا اپنے عزم و ہمت سے مقابلہ کیا۔ یہ کہنا کہ امریکا نے اپنی فوجیں بھیجیں، یہ غلط تاثر ہے پہلے دوسال تک تو افغان مجاہدین خود روسی فوج کا مقابلہ کرتے رہے البتہ پاکستان کی ان کو عملاً اخلاقی سیاسی اور عسکری حمایت حاصل رہی یہ افغان مجاہدین روس کے جدید ٹینکوں کو اس طرح ناکارہ کرتے کہ پہلے وہ بڑی سی چادر کو پانی میں بھگو کر ٹینک کے پہیوں میں پھینک دیتے وہ چادر اس میں الجھ کر ٹینک کو لنگڑا کردیتی اسی دوران دوسرا گروپ کچی مٹی کا گارا بناکر فرنٹ شیشے کی طرف پھینک کر اسے اندھا کردیتا پھر یہ مجاہدین ٹینک پر موجود عملے کو گرفتار کرلیتے جب پوری دنیا بالخصوص امریکا نے یہ دیکھا کہ اب روس افغانستان میں پھنس گیا ہے تب وہ میدان میں آیا اس وقت اسامہ بن لادن امریکا کے پسندیدہ جہادی تھے امریکا نے سب سے پہلے افغانستان میں جہاد کرنے والوں کو اسٹنگر میزائل فراہم کیے پاکستان سے بڑی تعداد کے ساتھ پوری مسلم دنیا سے بہت سے مسلمان جہاد کرنے کے لیے آئے اور زیادہ تر وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے یہ الگ بات ہے کہ یہی جہادی بعد میں دہشت گرد قرار دیے گئے۔
اکیسویں صدی میں امریکا افغانستان فتح کرنے آیا اور پھر بری طرح پھنس کررہ گیا اب 29فروری 2020 کو شکست خوردہ ہو کر جارہا ہے لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ افغانستان سے اس طرح واپسی ہو کہ اگر اسے ہماری فتح نہ بھی سمجھی جائے تو کم از کم شکست کا تصور بھی غالب نہ رہے۔
جاوید احمد خان
مذاکرات کی کامیابی میں تاخیر اس لیے ہوتی رہی کہ طالبان کا مطالبہ تھا کہ تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان چھوڑیں امریکا کی خواہش یہ تھی افغانستان کے آئندہ کے سیٹ اپ میں کسی نہ کسی درجے میں اس کی موجودگی قائم و برقرار رہے اور کچھ امریکی افواج بھی افغانستان میں رہیں تاکہ افغانستان کے وہ سیاسی عناصر جو امریکی حمایت سے کچھ ریاستی مناصب پر فائز ہیں ان کی سانسیں بحال رہیں لیکن طالبان امریکا کو کوئی اسپیس دینے کو تیار نہ تھے زلمے خلیل زاد نے بہت سہانے خواب دکھائے لیکن طالبان اس پر تیار نہ ہوئے۔ ایک مختصر مضمون میں تفصیلی تجزیہ تو ناممکن ہے بس یوں سمجھیں ایک اعصاب شکن ماحول میں افغانو ں کی عزت اور امریکی انا کی جنگ تھی۔
افغانستان کے نصف سے زائد رقبے پر طالبان کی امارت اسلامی کا قبضہ ہے اور کچھ علاقے مزید اس معاہدے کے بعد ملیں گے امریکا نے امارت اسلامی کو تسلیم تو نہیں کیا ہے طالبان اپنے موقف سے تھوڑا پیچھے اس لیے ہٹے ہیں کہ وہ بھی مذاکرات کی کامیابی اس لیے چاہتے ہیں افغان عوام اب امن امان کا دور دیکھنا چاہتے ہیں اسی عوامی خواہش کے پیش نظر طالبان انٹرا افغان مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ورنہ وہ پہلے اس پر تیار نہ تھے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کے موجودہ افغان حکومت اور طالبان کے علاوہ اور بھی سیاسی و عسکری قوتیں ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، گلبدین حکمت یار، رشید دوستم اور کرزئی اس میں نمایاں ہیں اشرف غنی کے انتخاب پر ان لوگوں نے بھی سوالات اٹھائے ہیں اس لیے ان کا جھکائو طالبان کی طرف ہو سکتا ہے مذاکرات کی دستخطی تقریب کی جتنی خوشی ہوئی تھی اب وہ کچھ ماند پڑتی نظر آرہی ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے انکار کے بعد طالبان نے انٹرا افغان مذاکرات سے انکار کردیا ایک ہفتے کی جنگ بندی کا وقت بھی ختم ہوچکاہے فٹبال کے ایک میچ پر حملے میں تین افراد کی ہلاکت کی خبر بھی آئی ہے۔ بس ہمیں خیر کی امید رکھنی چاہیے اور خدشات کا ادراک بھی رہنا چاہیے۔ امریکی صدر کی یہ دھمکی کہ طالبان نے معاہدہ توڑا تو ہم اتنی بڑی فوج لے کر آئیں گے کہ کبھی انہوں دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ یہ ایک شکست خوردہ ذہن کی بکواس ہے اس میں پھر امریکا کا اتنا بڑا نقصان ہوگا کہ جو اس نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔