مال و دولت کی آزمائش

275

مفتی محمد یوسف کشمیری

اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے چند وعدے کیے ہیں، بدلے میں انسانوں اور جنوں نے بھی اپنے رب سے عہد و پیمان کیا ہے۔ بلاشبہ جب مسلمان اللہ اور اس کے رسول محمد رسول اللہؐ کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو نبھائیں گے تو کامیاب وکامران رہیں گے۔ اس کے برعکس عہد وپیمان توڑنے کی صورت میں مختلف مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اللہ رب العزت نے ہم سے عالم ارواح میں عہد لیا، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت نے قیامت تک آنے والے انسانوں اور جنوں سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں؟ (سورۃ الاعراف: 172) ساری دنیا اور ہر زمانے کے انسانوں نے اللہ کے سامنے اقرار کیا کہ اے اللہ بالکل ہم اقرار کرتے ہیں، تسلیم کرتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے۔ دوسرا وعدہ ہم ہر نماز میں ہاتھ باندھ کر، قبلہ رخ ہو کر اللہ سے کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ (سورۃ الفاتحہ) جس کی قرأت اور یاد دہانی ہر نماز میں اور ہر رکعت میں ہم کرتے ہیں تاکہ ہم اس کو کہیں بھلا نہ دیں۔ تیسرا وعدہ اللہ نے ہم سے یہ لیا اور قرآنِ کریم میں اس کا تذکرہ کیا ہے کہ جب بھی تمہارے پاس میرا آخری رسول محمد رسول اللہؐ آئیں گے، یہ وعدہ اللہ نے انبیا سے بھی لیا اور دیگر عام انسانوں سے بھی، تو تم میں سے ہر شخص کو ان پر ایمان لانا پڑے گا اور ان کی مدد کرنی پڑے گی۔ (آل عمران: 81) ہم نے اس وقت بھی عہد کیا تھا کہ یا اللہ ہم تیرے پیغمبر کی فرماں برداری کریں گے اور ان پر ایمان لائیں گے۔
احادیث کی رو سے اللہ کے رسول محمد مصطفیؐ نے جن پانچ کاموں میں اپنی امت کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا، ان میں سے ایک زکوۃ دینے سے انکار کرنا ہے۔ اس کے بدلے میں اللہ رب العزت آسمان سے بارش روک لیں گے، جو ہماری تباہی و بربادی کا سبب بنے گا۔ واضح رہے سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کے پانچ فائدے بیان فرمائے ہیں: توبہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے رحمت کی بارشیں نازل فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ مال میں وسعت دے گا۔ اللہ تعالیٰ نیک وصالح اولاد دے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے باغات ہرے بھرے کر دے گا اور پانچواں فائدہ اللہ تعالیٰ آپ کی نہروں میں پانی کی فراوانی کر دے گا۔
ایک مرتبہ اللہ کے نبیؐ فجر کی نماز پڑھانے کے بعد صحابہ کرامؓ کی طرف متوجہ ہوکر خوش ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے آپ لوگوں نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین سے خراج کا مال لے کر آ رہے ہیں۔ صحابہ کرام نے کہا کہ جی ہاں اے اللہ کے رسولؐ ابو عبیدہ مدینہ پہنچ گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قحط یا غربت کا مجھے کوئی ڈر نہیں۔ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ جس چیز کا اندیشہ ہے وہ یہ ہے کہ دنیا تم پر امڈ آئے گی، جیسے آپ سے قبل قوموں پر کشادہ کردی گئی تھی۔ چنانچہ یہ دنیا پرستی تمہیں ہلاک کردے گی، جیسے آپ سے پہلے قومیں ہلاک ہوگئیں۔ (بخاری و مسلم) میری امت کے جو لوگ دیکھ بھال کر، غور وفکر کرکے، پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے۔ حلال کمائیں گے اور اپنی ضرورت پر خرچ کریں گے۔ جہاں جائز خرچ کرنے کا حکم دیا وہاں خرچ کریں گے، تو وہ بندہ اپنے رب کی رضامندی کا طالب ہو جائے گا، کامیاب ہو جائے گا، بچ جائے گا، ورنہ اس کا بچنا مشکل ہے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں دولت کی وجہ سے خاندانوں کے خاندان مٹ رہے ہیں۔ بھائی کے ہاتھ سے بہن، بہن کے ہاتھ سے بھائی، شوہر کے ہاتھ سے بیوی، بیٹے کے ہاتھ سے باپ، دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور مٹ گئے۔ آپ نے دیکھا ہوگا بعض اوقات بندہ جتنا نیک ہوتا ہے، متقی ہوتا ہے، پرہیز گار ہوتا ہے، اللہ کے دین کا پابند ہوتا ہے۔ جب وہ ذرہ سی غلطی کرتا ہے، اس سے بھول چوک ہوتی ہے، کوئی نافرمانی کر بیٹھتا ہے، کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے، تو پکڑ آجاتی ہے، آزمائش آجاتی ہے، وہ پریشان ہوجاتا ہے، کیوں؟ کیونکہ اللہ اپنے بندے سے فرماتا ہے: تو واپس آجا، پلٹ جا دین کی طرف، تیرے لیے آخرت ہے۔ وہ غور وفکر کرتا ہے، غلطی ہوتی ہے تو دین کی طرف آجاتا ہے۔ یہ اس بندے کے ساتھ رب کی بہت بڑی خیرخواہی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں مال و دولت کی آزمائش سے بچائے اور دنیا کی لذتوں میں کھونے کی بجائے صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ آمین