مسجد میں دوسری جماعت کا حکم

495

محمد رضی الاسلام ندوی

نماز اسلام کے ارکان میں سے ہے۔ اس کی فرضیت قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے مسجد میں جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور انفرادی نماز کے مقابلے میں باجماعت نماز کو افضل قرار دیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’باجماعت نماز تنہا نماز سے ستائیس گُنا افضل ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اس لیے صحابہ کرامؓ باجماعت نماز ادا کرنے کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے اور کھلے منافقین کے علاوہ کوئی اس سے پیچھے نہیں رہتا تھا۔
کسی مسجد میں نما زکے لیے ایک مرتبہ جماعت ہوچکی ہو، بعد میں کچھ افراد وہاں پہنچیں تو کیا وہ دوسری جماعت کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں بعض حالتوں میں فقہا کا اتفاق ہے اور بعض حالتوں میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ اس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے:
اگر کسی مسجد میں نماز پڑھنے والے متعین نہ ہوں، مثلاً کوئی مسجد بازار میں یا شاہراہ عام پر ہو، وہاں لوگ مستقل آتے جاتے ہوں تو اس میں کسی نماز کی دوسری جماعت کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ اسی طرح ان کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ کسی مسجد میں امام اور موذن متعین نہ ہوں تو اس میں بھی ایک سے زائد جماعتیں کی جا سکتی ہیں کہ کچھ لوگ جماعت سے نماز پڑھ لیں، بعد میں کچھ اور لوگ آئیں تو وہ دوسری جماعت کریں۔ اسی طرح تمام فقہا کے نزدیک اس میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے کہ اگر کسی مسجد میں باہر سے آئے ہوئے کچھ لوگ کسی وقت کی نماز جماعت سے پڑھ لیں، اس کے بعد مسجد کے مستقل نمازی آئیں تو وہ بھی باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کسی مسجد میں ایک نماز کے لیے دو جماعتوں کے اوقات متعین کر دیے جائیں۔ مثلاً طے کر لیا جائے کہ ظہر کی پہلی جماعت ایک بجے اور دوسری جماعت ڈیڑھ بجے ہوگی تو فقہا نے بالاتفاق اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔
فقہا کا اختلاف اس مسئلے میں ہے کہ کسی مسجد میں متعین امام اور مؤذن ہوں اور اس کے کچھ مستقل نمازی ہوں۔ یہ لوگ کسی وقت کی نماز جماعت سے ادا کر لیں، اس کے بعد اکاّ دکاّ افراد مسجد میں آئیں۔ کیا وہ اس وقت کی نماز کے لیے دوسری جماعت کر سکتے ہیں؟ بعض فقہا کہتے ہیں کہ بعد میں آنے والے تمام افراد تنہا نماز پڑھیں گے۔ ان کا باجماعت نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔ حسن بصری، ابو قلابہ، قاسم بن محمد، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک، سالم، لیث بن سعد، اوزاعی اور ائمۂ اربعہ میں سے ابوحنیفہ، مالک اور شافعیؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ان حضرات کا استدلال درج ذیل احادیث سے ہے:
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کیے جانے کا حکم دوں، پھر اذان کے لیے کہوں، پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے، پھر نماز کے لیے مسجد نہ آنے والوں کے گھروں تک جاؤں اور حکم دوں کہ ان لوگوں کے گھروں میں موجود رہتے ہوئے ان میں آگ لگا دی جائے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اگر مسجد میں ایک نماز کی دوسری جماعت کی اجازت ہوتی تو جماعت اولیٰ سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں اللہ کے رسولؐ اتنا سخت انداز نہ اختیار فرماتے۔
ایک روایت سیدنا ابو بکرہؓ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیؐ مدینہ کے مضافات میں تشریف لے گئے۔ واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں۔ آپ اپنے گھر میں تشریف لے گئے اور وہاں گھر والوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ (طبرانی فی الاوسط)
سیدنا حسنؓ بیان کرتے ہیں کہ اصحاب رسول کی کوئی جماعت چھوٹ جاتی تھی تو وہ مسجد میں تنہا ادا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
فقہا یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مسجد میں ایک نماز کے لیے کئی جماعتوں کو جائز قرار دیا جائے تو اس سے لوگوں میں سستی پیدا ہوجائے گی۔ وہ پہلی جماعت میں شرکت کے لیے جلدی پہنچنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
بعض دیگر فقہا کہتے ہیں کہ مسجد میں کوئی نماز باجماعت ہوجائے تو دوسری جماعت بلا کراہت جائز ہے۔ یہ رائے صحابہ کرامؓ میں سیدنا انس اور عبد اللہ بن مسعودؓ اور تابعین میں عطا اور قتادہ اور ائمہ اربعہ میں سے امام احمدؒ کی ہے۔ (حسن اور نخعی سے بھی ایک روایت یہی ہے) اس کے لیے وہ درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
سیدنا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آیا۔ اس وقت رسول اللہؐ نماز سے فارغ ہوگئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کون شخص اس کے ساتھ نماز میں شامل ہوکر ثواب کمائے گا؟‘‘ یہ سن کر ایک شخص اٹھا اور اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا۔ (ابو داؤد، ترمذی)
ایک مرتبہ انسؓ ایک ایسی مسجد میں پہنچے جہاں جماعت ہوچکی تھی۔ انھوں نے دوسری جماعت کروائی۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود اپنے شاگردوں (علقمہ، مسروق اور اسود) کے ساتھ ایک مسجد میں پہنچے تو وہاں نماز ہوچکی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ان کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی۔ (مصنف ا بن ابی شیبہ)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ بعض احادیثِ نبوی اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں مسجد میں ایک نماز کے لیے دوسری جماعت کی گنجائش ہے۔ البتہ اسے پہلی جماعت سے سستی کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے اور یہ نہیں سوچ لینا چاہیے کہ بعد میں مسجد پہنچ کر جماعت کر لیں گے۔ باجماعت نماز کے متعینہ اوقات میں مسجد میں حاضری کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ اگر کسی وجہ سے کئی لوگوں کی جماعت چھوٹ جائے تو وہ مسجد کے کسی کونے میں باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری جماعت اس جگہ نہیں کرنی چاہیے جہاں پہلی جماعت ہوتی ہے، تاکہ کسی کو پہلی جماعت کے وقت کے بارے میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔