سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

245

میاں انوار اللہ

سیدنا سلمان فارسی رسول اللہؐ کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔
آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ نبیؐ کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ سیدنا محمدؐ کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔
سلمان فارسیؓ ایران کے شہر اصفہان کے ایک گاؤں روزبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا تعلق زرتشتی مذہب سے تھا۔ مگر سلمان فارسیؓ کا دل سچ کی تلاش میں تھا۔ پہلے آپ نے عیسائیت اختیار کی اور حق کی تلاش جاری رکھی۔ ایک عیسائی راہب نے انہیں بتایا کہ ایک سچے نبی کی آمد قریب ہے جس کا تذکرہ پرانی مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔ اس راہب نے اس نبی کا حلیہ اور ان کے ظہور کی ممکنہ جگہ یعنی مدینہ کے بارے میں بھی بتایا جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا۔
یہ جاننے کے بعد سیدنا سلمان فارسیؓ نے مدینہ جانے کی کوشش شروع کر دی۔ مدینہ کے راستے میں ان کو ایک عرب بدوی گروہ نے دھوکے سے ایک یہودی کے ہاتھ غلام کے طور پر بیچ دیا۔ یہ یہودی مدینہ میں رہتا تھا، چنانچہ سلمان فارسیؓ مدینہ پہنچ گئے اور اس یہودی کے باغ میں سخت محنت پر مجبور ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد جب آپؐ مکہ شہر سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو سلمان فارسیؓ نے ان کی خصوصیات سے فوراً پہچان لیا کہ یہی اللہ کے سچے نبی ہیں۔ انہوں نے مہر نبوت بھی ملاحظہ کی۔ اسی وقت انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس وقت سلمانؓ ایک یہودی کے غلام تھے۔ آپؐ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے تقریبا 300 پودے یہودی کے باغ میں لگا کر سلمانؓ کو آزاد کرایا۔ ان کے بارے میں ارشاد نبوی ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کرلیں گے۔ غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے موقع پر سیدنا سلمان فارسیؓ سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ ’’سلمان ہمارا ہے‘‘۔ انصار نے یہ سنا تو کہا: ’’سلمان ہمارا ہے‘‘۔ نبیؐ تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا: ’’سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے‘‘۔ اس لیے سلمانؓ کو مہاجرین یا انصار کے بجائے اہل بیت میں شمار کیا گیا۔ غزوہ خندق کے دوران جب مسلمان شدید خطرے میں تھے، سیدنا سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا کہ مدینہ کے ارد گرد خندق کھودی جائے، چنانچہ خندق کھودی گئی جس نے مشرکین کو حیران کر دیا کیونکہ یہ طریقہ اس سے پہلے عرب میں استعمال نہیں ہوا تھا۔