مولانا سید جلال الدین عمری
ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتا ہے اسے اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہ رویہ پسندیدہ اور شریفانہ ہے تو اسے حسنِ اخلاق کہا جائے گا۔ اگر ناپسندیدہ اور غیر مہذب ہے تو اسے بداخلاقی کہا جائے گا۔
اخلاق کا پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ اس کی اہمیت کے مختلف پہلو ہیں۔ قرآن وحدیث میں ان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور اہل ایمان کو ان پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مومن انتہائی مہذب اور شائستہ ہوتا ہے، دیانت دار اور امانت دار ہوتا ہے، کذب بیانی اور دروغ گوئی سے اس کی زبان آلودہ نہیں ہوتی۔ وہ کسی کے ساتھ مکر وفریب اور دغابازی نہیں کرتا، متوضع اور خاکسار ہوتا ہے، نخوت اور گھمنڈ کا مظاہرہ نہیں کرتا، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں سے احترام سے پیش آتا ہے، مظلوموں کی داد رسی کرتا ہے۔ بیوی، بچوں، قرابت داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔ اس طرح کی اخلاقی خوبیاں ایک مومن کی پہچان ہیں۔ ان کے بغیر ایک مومن صادق کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
رسول اللہؐ اعلی اخلاق کے پیکر
قرآن مجید نے جن اعلی اخلاقی اوصاف کا ذکر کیاہے، رسول اللہؐ کی زندگی اس کا عملی نمونہ تھی۔ سیدہ عائشہؓ سے ہشام بن عامر نے درخواست کی کہ رسول اللہؐ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے۔ انہوں نے جواب دیا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں پڑھتا ہوں۔ فرمایا: نبیؐ کے اخلاق عین قرآن تھے۔ (مسلم)
جن اعلی اخلاق کا قرآن میں ذکر ہے وہی رسول اللہؐ کے اخلاق تھے۔ آپ کی زندگی ان کا عملی نمونہ تھی یہی بات ایک اور حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ ’’آپ کے اخلاق مکمل قرآن تھے‘‘۔ (مسند احمد)
حسن خلق کی فضیلت
حسن خلق کی فضیلت میں بکثرت احادیث مروی ہیں۔ سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک مومن اپنے حسن اخلاق کے ذریعے وہ مقام حاصل کرلیتا ہے جو قائم اللیل اور صائم النہار کا ہے‘‘۔ (ابو داؤد)
’قائم اللیل‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنی رات نماز تہجد میں گزارے، صائم النہار‘ وہ جو دن میں مستقل روزے رکھے۔ یہاں نفل نماز اور روزوں کا ذکر ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حسنِ اخلاق بڑی سے بڑی نفل عبادات کے برابر ہے۔
حسن کلام
اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے جن اہم باتوں کا عہد لیا تھا ان میں ایک یہ تھی: ’’لوگوں سے اچھی طرح بات کہو‘‘۔ (البقرہ:83) اس سے حسن کلام کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ مخاطب کو اپنے سے قریب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس میں نرمی، محبت، تہذیب و شائستگی جیسی خوبیاں شامل ہیں۔
سیدنا ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کثرت سے نماز پڑھتی اور روزے رکھتی ہے۔ صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے، لیکن (بدخلق ہے) اپنی زبان سے پڑوسیوں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ جہنم میں جائے گی۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک دوسری عورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے ہاں (نفل) نمازوں اور روزوں کا زیادہ اہتمام نہیں ہے۔ پنیر جیسی چیز کا تھوڑا صدقہ کردیتی ہے۔ لیکن (پڑوسیوں سے اس کا رویہ اچھا ہے) اپنی زبان سے انہیں تکلیف نہیں دیتی۔ آپ نے فرمایا: وہ جنت میں جائے گی۔ (مشکوۃ)
حدیث میں زبان کو قابو میں رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سہل بن سعدؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان (زبان) ہے اور اس چیز کی جو اس کے دو پیروں کے درمیان (شرم گاہ) ہے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔ (ترمذی)
رسول اللہؐ نے زبان اور عفت وعصمت کی حفاظت پر جنت کی ضمانت دی ہے۔ اس سے بڑی ضمانت اور کس کی ہوسکتی ہے؟
سفیان بن عبداللہ ثقفیؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ آپ کو میرے بارے میں سب سے زیادہ کس چیز کا خوف ہے؟ آپ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: اس سے۔ (بخاری)
یہ درحقیقت زبان کے استعمال میں انتہائی محتاط رہنے کی ہدایت ہے۔ زبان کی حفاظت اسی وقت ہوگی جب آدمی اذیت رسانی، لاف زنی، لایعنی، لغو اور بے دینی کی باتیں جیسی خرابیوں سے اسے محفوظ رکھے۔
غصے سے اجتناب
قرآن مجید میں اہل ایمان کے بارے میں ایک جگہ فرمایا کہ وہ زمین وآسمان جیسی وسعت والی جنت کے مستحق ہوں گے۔ ان کی جو خوبیاں بیان ہوئی ہیں ان میں یہ تین خوبیاں بھی ہیں: ’’وہ غصے کو پی جاتے ہیں، لوگوں کی زیادتی کو معاف کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (آل عمران:134)
جب کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے یا اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ بے قابو ہوجاتا ہے اور غیظ وغضب کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔ لیکن اہل ایمان کی خوبی یہ ہے کہ کوئی اپنے قول وفعل سے ان کو اذیت پہنچاتا ہے، بدزبانی کرتا ہے یا ان پر دست درازی کرتا ہے تو فطری طور پر انہیں تکلیف تو ہوتی ہے اور غصہ بھی آتا ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ غصے کا تلخ گھونٹ پی جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس سے آگے وہ عفو ودرگزر سے کام لیتے ہیں۔ غصہ نہ ہونا اور تحمل و برداشت سے کام لینا بڑی خوبی ہے۔ اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے کو معاف کردیا جائے۔ اس سے اونچا مقام یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اس کی مدد کی جائے جو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جائے۔
حدیث میں کہا گیا ہے کہ انسان کی اصل جرأت وشجاعت مادی نہیں، اخلاقی ہے۔ ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’طاقتور (پہلوان) وہ نہیں ہے جو (مقابل کو) پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے‘‘۔ (بخاری)
غصے پر قابو پانا اللہ تعالی کو بہت محبوب عمل ہے۔ اس سے وہ بے حد خوش ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بندے نے ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیا جو اللہ کے نزدیک اس گھونٹ سے افضل اور برتر ہو جو اس نے اللہ کی رضا کی طلب میں غصے کو فرو کرکے نوش کیا‘‘۔ (مسند احمد)