سر عام سزا ہی سے سدھار ہو گا

357

پاکستان میں قِسم قِسم کے تبصرے دین اسلام کے حوالے سے کیے جاتے ہیں اور یہ تبصرے کرنے والے عام لوگ نہیں ہوتے۔ کبھی سربراہ مملکت ایسے تبصرے کرتا ہے کبھی آرمی چیف کبھی سربراہ حکومت اور کبھی عدلیہ کے ذمے دار۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذمے داران اسلام کی بنیادی تعلیمات ہی سے واقف نہیں۔ کبھی آرمی چیف (جنرل ضیا الحق) درس قرآن کے جواب میں کہتے ہیں کہ اتھارٹی میں ہوں۔ کبھی صدر ممنون کہتے ہیں کہ علمائے کرام سود کی گنجائش نکالیں، کبھی چیف جسٹس (سابق) وہ سوال پوچھتے ہیں جو ساڑھے چودہ سو سال قبل کفار قریش پوچھا کرتے تھے کہ سود اور تجارت دونوں میں منافع ہے تو سود حرام کیوں ہے، یہ ایک جیسے تو ہیں؟ وزیراعظم کے تو کیا کہنے انہیں اس حوالے سے معذور سمجھا جانا چاہیے کہ نہ تعلیم پاکستان میں نہ تربیت۔ لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے سربراہ کے منصب پر پہنچنے والے بھی فرما ہے ہیں کہ سرعام سزائے موت سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس فرما رہے ہیں کہ پھانسی نہیں رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت کسی وکیل نے توجہ نہیں دلائی کہ ایسے مجرموں کو عبرت کا نشان بنانا ضروری ہے اسی سے معاشرے کی اصلاح بھی ہوتی ہے اور جن ممالک میں سر عام سزائے موت کا قانون نافذ رہا ہے وہاں جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم رہی ہے۔ اب تو سعودی عرب کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے ورنہ وہاں سالانہ ایک ڈیڑھ درجن ڈاکوئوں، قاتلوں یا اسی قسم کے غیر اخلاقی جرائم میں ملوث لوگوں کو سر عام سر قلم کرنے کی سزا دی جاتی تھی اور ایک کروڑ 80 لاکھ لوگ دن رات امن میں رہتے تھے۔ دکانیں کھلی چھوڑ جاتے تھے، سامان گھر کے سامنے الگ چھوڑ جاتے تھے کوئی چوری نہیں ہوتی تھی قیمتی گاڑیاں گھروں کے سامنے سڑک پر کھڑی رہتی ہیں کچھ نہیں ہوتا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ معاملہ بچوں پر تعلیمی اداروں میں تشدد روکنے کا تھا، اس میں سر عام سزائے موت کہاں سے آگئی۔ یہ بات درست ہے کہ بچوں پر تشدد نہیں ہونا چاہیے لیکن زجرو تو بیخ کا سلسلہ تو برسہا برس پرانا ہے اور آزمودہ بھی۔ تشدد تو ذہنی بھی نہیں ہونا چاہیے۔لیکن جدید تعلیمی اداروں میں جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ بچوں پر ذہنی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ کہیں فیسوں کی بنیاد پر کہیں معاشرتی اور طبقاتی تفاوت کی بنیاد پر متوسط اور غریب طبقے کے بچوں پر ذہنی تشدد ہوتا ہے۔ اگر کسی میراثی، گانے بجانے والے یا آزاد خیال مرد و عورت کے دعوے پر فیصلے کرنے ہیں تو اور بات ہے ورنہ سر عام سزا ہی کے اثرات معاشرے کو سدھارتے ہیں۔ قرآن تو واضح ہدایت دیتا ہے کہ سزا بھی سر عام دو اور اس وقت مسلمانوں کا ایک گروہ بھی موجود ہو۔ یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت نہ دینے کی بات کی جارہی ہے۔ گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ بچوں پر تشدد نہ کرو زیادتی کر لو… دوسری جانب حیرت انگیز طور پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ حیا ہی خواتین کا وقار ہے۔ وجود کی نمائش عورت کی توہین ہے۔ انہوں نے میڈیا کو مشورہ دیا کہ ایسے حساس معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرے۔ ایک خاتون ہونے کے ناتے معاون خصوصی کا بیان بہت عمدہ ہے اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے، انہوں نے میڈیا کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ بھی درست ہے لیکن انہیں پاکستان کے ٹی وی چینلز کو بھی اس حوالے سے سمجھانا چاہیے خصوصاً پیمرا کو ہدایت دینی چاہیے کہ عورت کو بازار کی جنس نہ بننے دیا جائے۔ جب پاکستانی معاشرے کے روایات کی بر خلاف ڈرامے بنائے جاتے اور دکھائے جاتے ہیں تو پیمرا انہیں روک نہیں سکتا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ اس جانب بھی توجہ فرمائیں۔