چوتھا ستون

254

صحافت کو حکومت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے مگر اس چوتھے ستون کا بھی وہی حال ہے جو رینجرز کے ملازمین کا ہے حالاں کہ ہر آرمی چیف نے اعتراف کیا ہے کہ رینجرز پاکستان کی اولین دفاعی لائن ہے لیکن جب مراعات اور سہولتوں کا معاملہ ہوتا ہے تو رینجرز کے ملازمین کو سول قرار دے کر ان کے حقوق ہڑپ کرلیے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک حادثے میں ہمارے سر میں شدید درد ہونے لگا، اسپتال گئے وہاں چند دن کے لیے پین کلر دیے گئے اور پھر ماہر نفسیات کو ریفر کردیا گیا، اچھی طرح چیک اپ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے سی ٹی اسکین کرانے کی تجویز دی، ایکسرا کرانے گئے تو کہا گیا 1600 روپے جمع کرائو، ہم نے کہا ڈاکٹر صاحب نے ’’فری‘‘ لکھا ہے۔ جواب دیا گیا کہ ایم ایس کے سائن کرا لائو ایکسرا فری ہوجائے گا۔ ایم ایس کے آفس گئے تو بتایا گیا کہ ڈاکٹر سلیم ملک سے سائن کرالو کہ یہ اختیار انہی کو حاصل ہے۔ ملک صاحب نے دستخط کردیے اور کہا پریس کلب کے صدر کا لیٹر لگادو اور الموز کے آفس چلے جائو وہاں نمبر لگادیا جائے گا، وہاں گئے تو یہ انکشاف ہوا کہ صحافیوں کو یہ سہولت حاصل نہیں، اگر ایم ایس صاحب شفقت فرمائیں تو ایکسرا فری ہوسکتا ہے۔ ایک بار پھر ایم ایس صاحب کے آفس گئے انہوں
نے بڑی مشکل سے سائن کیے، یوں دو دن کی بھاگ دوڑ کے بعد فری ایکسرا ہوگیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں کے دوستوں اور شناسا لوگوں کو ساری سہولتیں میسر ہیں مگر صحافیوں کو فری ایکسرا کرانے کی سہولت دستیاب نہیں۔ حکومت اور وزیر اطلاعات صحافیوں کو سہولتیں اور مراعات دینے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کرتے۔ بہاولپور پریس کلب میں کئی بار پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا مگر یہ اعلان میونسپل کمیٹی کی منادی سے زیادہ نہیں ثابت ہوا۔ کچھ عرصے قبل آدھا مربع زمین دینے کا بھی بہت چرچا رہا مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔ ہم وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان سے یہ جانا چاہتے ہیں کہ صحافی برادری کے ساتھ چوہے بلی کا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے صحافیوں کو کئی مراعات دینے کا وعدہ کیا مگر ان کا ہر وعدہ ، وعدہ ہی رہا۔ بہت عرصہ قبل تابش الوری اور ولی اللہ احمد صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی کیا کرتے تھے تو ان کی کوششوں سے بااثر صحافیوں کو پلاٹ دیے گئے تھے اس کے بعد صرف اعلانات ہوتے رہے اور صحافیوں کو وعدہ فردا پر ٹرخانے کا وتیرا بنالیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ضرورت مند صحافی کے پاس ایگری ڈیشن کارڈ ہو تب بھی اسپتال کا عملہ اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتا مگر ان کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھنے والے صحافی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔