کراچی، عدالت عظمیٰ احکامات پر عمل بھی کروائے

329

ملک میں معاشی بحران تو ہے ہی مگر کراچی میں اس کے ساتھ انتظامی بحران نے بھی سر اٹھا لیا ہے اور کراچی کے شہری ایک عجیب و غریب صورتحال سے دو چار ہوگئے ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ گزشتہ 15 برسوںمیں چائنا کٹنگ اور رشوت کے بازار نے کراچی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے مگر اس جرم کی سزا وہ لوگ بھگت رہے ہیں جنہوں نے یہ جرم کیا ہی نہیں ہے ۔ کراچی ملک کا وہ شہر ہے جس کی آبادی پورے ملک میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ قبائلی علاقوں سے لے کر سندھ کے دیہی علاقوں تک کے لوگ روز بڑی تعداد میں روزگار کی تلاش اور اچھی زندگی کی آس میں کراچی کا رخ کرتے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد کو غریب پرور کراچی میں کسی نہ کسی طرح روزگار تو مل ہی جاتا ہے مگر ان کی رہائش اور دیگر ضروریات زندگی نے کراچی کو اہم مسائل سے دوچار کردیا ہے ۔ خود سرکاری افسران اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے مگر مردم شماری میں سندھ حکومت نے بوجوہ اس کی آبادی کو نصف سے بھی کم دکھایا ہے ۔ اس بے انصافی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی کے لیے جو وسائل مختص کیے گئے ہیں وہ اس کی آبادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہیں ۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ کراچی کو میگا سٹی ڈکلیئر کرکے اس کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی جاتی اور کراچی نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ لگا کر ان کی رہائش ، پانی ، سیوریج ، بجلی، گیس ، ٹرانسپورٹ وغیرہ کی فراہمی کے لیے درست منصوبہ بندی کی جاتی ، کراچی کو ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے نوٹ چھاپنے کی مشین کا درجہ دے دیا ۔ اس رشوت خوری کی وجہ سے کراچی کا جو حال ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ اس صورتحال کو سپریم کورٹ نے درست کرنے کی ذمہ داری لی ہے مگر جس طرح سے سپریم کورٹ احکامات جاری کررہی ہے ، وہ سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ سپریم کورٹ روز ایک حکم جاری کرتی ہے اور اس کے لیے ڈیڈ لائن مقرر کرتی ہے ۔ کچھ عرصے کے بعد پھر سے حکم جاری کیا جاتا ہے اور ایک نئی ڈیڈ لائن مقرر کردی جاتی ہے ۔ احکامات جاری کرنے میں سپریم کورٹ کے پیش نظر نہ تو مذکورہ حکم کے نتیجے میں پیش آنے والے انسانی المیے کا کوئی تصور ہوتا ہے اور نہ ہی اس حکم کا کوئی فالو اپ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی کراچی کی انتظامیہ اپنی تعبیر پیش کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں غریبوں پر تو حکم پر عملدرآمد فوری ہوجاتا ہے اور طاقتور اُسی طرح مونچھوں کو تاؤ دیے گھومتے نظر آتے ہیں ۔ کراچی کے سرکلر ریلوے ہی کو دیکھیںکہ اس بارے میں سپریم کورٹ نے کتنی بار ڈیڈ لائنیں مقرر کی ہیں ۔ گزشتہ رمضان میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ عید سے قبل تک تمام تجاوزات صاف کردی جائیں ۔ ہر مرتبہ یہی حکم نئی ڈیڈ لائن کے ساتھ جاری کیا جاتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تما م غیر قانونی شادی ہال فوری طور پر ختم کردیے جائیں ۔ فوج کے زیر انتظام ایک ایک شادی ہال کا نام لے کر احکامات جاری کیے گئے ۔ انتظامیہ نے اس حکم کو مال پیٹنے کا ذریعہ بنالیا ۔ روز ایک شادی ہال توڑ کر بقیہ سے بھاری رشوت وصول کی جاتی ہے ۔ فوج کے زیر انتظام سارے ہی شادی ہال اسی طرح سے قائم ہیں ، وہاں پر جاتے ہوئے انتظامیہ کے پر جلتے ہیں ۔ حتیٰ کہ پرانی سبزی منڈی کی جگہ پر بنائے گئے عسکری شادی ہال میں بھی روز اسی طرح تقریبات ہوتی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کھیل کے میدان اور گرین بیلٹ میں لگائے جانے والے سارے ہفتہ واری بازار ختم کردیے جائیں ۔ چند ہفتوں کے بعد سارے بازار ایک ایک کرکے دوبارہ لگنے شروع ہوگئے۔ کراچی میں تعمیر ہونے والی غیر قانونی عمارتوں کے بارے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی وہ عمارتیں توڑنے پہنچ گئی جو باقاعدہ لیز ہیں مگران میں کھلا پورشن اتنا نہیں چھوڑا گیا جتنا قانون کہتا ہے یا پھر ایک منزل زاید ڈال دی گئی ہے ۔ کھیل کے میدانوں ، واٹر بورڈ کی لائنوں اور گرین بیلٹ پر کی گئی چائنا کٹنگ تک جاتے ہوئے ہر سرکاری ادارے کی سانس پھول جاتی ہے مگر وہ شہری جنہوں نے سارے ٹیکس ادا کرنے کے علاوہ متعلقہ اداروں کو بھاری رشوتیں بھی دی ہیں ، وہی سب کا نشانہ ہیں ۔ الہ دین پارک سے متصل رائل ریزیڈنسی کی بھی عجیب کہانی ہے ۔ اس کو حکومت سندھ نے لیز دی ، اسے کمرشیل کا درجہ دیا ، کئی مرتبہ یہ پلاٹ فروخت ہوا اور سب رجسٹرار کے پاس مالکان کی تبدیلی کی گئی اور بھرپور ٹیکس لیا گیا ۔ اس پر عمارت کا نقشہ منظور کیا گیا اور عمارت کی تعمیر کے لیے 24 اداروں سے این او سی لیا گیا ۔ اخبارات میںصوبائی حکومت کی اجازت سے بھرپور تشہیری مہم چلائی گئی ۔جب یہ سارے فلیٹ بک ہوگئے اور بک کروانے والے شہریوں نے کروڑوں روپے فی فلیٹ کی ادائیگی بھی کردی تو اچانک حکم آیا کہ یہ عمارت گرادی جائے ۔کسی نے ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ اگر یہ عمارت غلط تعمیر ہورہی تھی تو اس کو لیز کیوں کیا گیا ، اس کو تجارتی کا درجہ دے کر بھاری فیس کیوں وصول کی گئی ، بار بار فروخت پر ٹیکس کیوں وصول کیا گیا ، نقشہ کیوں منظور کیا گیا اور اس عمارت میں فلیٹ فروخت کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ۔ ان سارے سرکاری افسران کو عدالت نے نہ تو طلب کیا اور نہ ہی بازپرس کی ، انہیں سزا دیناتو دور کی بات ہے ۔ ایک عام آدمی تو سرکاری کاغذ دیکھ کر ہی خرید و فروخت کرتا ہے اگر سرکاری کاغذ بھی غیر قانونی معاملہ قرار پائے تو شہری کہاں جائیں ۔لیاقت آباد ، گولیمار، پٹھان کالونی جیسے علاقوں میں تو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے قدم رکھیں گے نہیں مگر یہ گلستان جوہر ، فیڈرل بی ایریا اور ناظم آباد میں ضرور شہریوں پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ سپریم کورٹ ضرور غلط تعمیرات کانوٹس لے مگر کھیل کے میدان، رفاہی پلاٹ اور گرین بیلٹ کو خالی کروائے ۔ وہ لیز رہائشی پلاٹ جن پر تعمیرات ہوچکی ہیں ، انہیں اسی طرح جرمانہ عاید کرکے ریگولرائز کردیا جائے جس طرح عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد میں کیا ہے ۔ حیات ریجنسی اور پورے بنی گالہ کو ریگولرائز کردیا گیا مگر کراچی کے شہریوں پر آفت توڑ دی گئی ہے۔ اسلام آبا د میں شاہراہ دستور پر بلڈنگوں کو ریگولرائز کر دیا گیا مگر کراچی میں جن شہریوں نے سارے ٹیکس دے کر تعمیر کی ہے ، ان پر خوف کا آسیب مسلط کردیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ سے کراچی پورے ملک میں الگ سے تباہی کا شکار ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ کی تلوار ان افسران پر چلتی جو اس غیر قانونی کاروبار کے سرپرست رہے مگر وہ سب کے سب آرام فرمارہے ہیں اور انہی کو دوبارہ سے توڑ پھوڑ آپریشن کا ذمہ دار بنادیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ اگر نظام کو درست کرنے پر توجہ دے تو یہ زیادہ بہتر کام ہوگا۔ اس وقت بھی یہ صورتحال ہے کہ غیر قانونی تعمیرات تو دھڑلے سے جاری ہیں کہ اس کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے مگر قانونی نقشوں کی منظوری کے لیے بھی لاکھوں روپے کی رشوت طلب کی جارہی ہے ۔ سپریم کورٹ فوری طور پر مسمار کرنے کی ہدایت کو واپس لے کر پہلے ان لوگوں کی آبادگاری کا تو بندوبست کرے ۔ اگر اسی طرح گھر توڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو کراچی میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔کاروباری اور تجارتی عمارتوں کو توڑنے کے نتیجے میں کراچی کی ایک بڑی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہوسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت سندھ پر بھی عاید ہوتی ہے ۔ اس کے افسروں کی نااہلی اور رشوت خوری کی وجہ سے کراچی کے شہری ایک مصیبت میں پھنس گئے ہیں ۔ سندھ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے سندھ اسمبلی کے ذریعے باقاعدہ قانون سازی کرسکتی ہے کہ باقاعدہ لیز عمارت پر اگر کسی نے زاید تعمیر کرلی ہے ، یا رہائشی پلاٹوں میں اسکول و کلینک کام کررہے ہیں تو وہ جرمانہ بھر کر ریگولرائز کروالیں ۔ ہاں کھیل کے میدان ، گرین بیلٹ اور رفاہی پلاٹ ضرور خالی کروائے جائیں مگر یہ سب جن سرکاری افسران کی ناک کے نیچے ہوا ہے ، ان کی بھی گرفت کی جائے ۔ اگر اسی طرح کراچی میںبلا سوچے سمجھے توڑ پھوڑ جاری رکھی گئی تو اس سے اہل کراچی کے احساس محرومی میں اضافہ ہوگا جو کسی طور بھی درست نہیں ہے ۔
عدالت عظمیٰ نے کراچی کے علاقے گلبہار میں عمارت گرنے اور ہلاکتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی، سب چین کی نیند سوئے ، کراچی کے سارے پروجیکٹ مٹی کا ڈھیر ہیں۔ جناب چیف جسٹس کی برہمی بجا ہے لیکن ڈنڈا ان کے ہاتھ میں ہے، اصل مجرموں کو پکڑیں کسی بلڈر کو نہیں، اصل مجرم حکومت میں ہیں۔