حکومتی اخراجات میں اضافہ اور ترقیاتی بجٹ میں کمی

211

 

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

مارچ 2020ء کے آغاز سے تانیہ ادریس صاحبہ کو پاکستان کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے وزیراعظم کے خصوصی معاونین کی فہرست میں شامل کردیا گیا جس میں ان کا منصب منسٹر آف اسٹیٹ کے برابر ہوگا اور اس طرح وزیراعظم کے خصوصی معاونین کی تعداد 13 ہوگئی اور اس میں اگر 5 مشیر، 4 منسٹر آف اسٹیٹ اور 25 وفاقی وزرا کو بھی شامل کرلیا جائے تو خیر سے وزیراعظم کی کابینہ کی تعداد بڑھتے بڑھتے 47 ہوگئی کیوں کہ یہ تمام خواتین و حضرات ایک وزیر کے برابر مراعات کے حقدار ہوں گے جس میں تنخواہ کے علاوہ اسمبلی کے اجلاس کا ڈیل الائونس، ہوائی سفر کی سہولت، رہائش، گاڑی، پٹرول، ٹیلی فون، علاج معالجہ وغیرہ شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض صورتوں میں ایک ہی کام دو، دو، یا تین تین لوگ کررہے ہیں۔ کام کس طرح کریں گے یا آپس میں جھگڑا کریں گے یا کام کریں گے ہی نہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔
مثلاً اعظم سواتی صاحب کے پاس وفاقی وزیر کی حیثیت سے پارلیمانی امور کا شعبہ ہے جب کہ علی محمد ایک اسٹیٹ منسٹر کے طور پر اس شعبے کے ذمے دار بنائے گئے ہیں اسی طرح ندیم افضل گوندل پارلیمانی رابطے کے معاملے میں وزیراعظم کے خصوصی معاون ہیں۔ عمر ایوب پاور ڈویژن اور پٹرولیم کے وفاقی وزیر ہیں جب کہ ندیم بابر وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے پٹرولیم ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ اپنوں کو نوازنا مقصود تھا یا غیروں کی ناراضی دور کرنا تھی تو کسی کو وزیر بنادیا تو کسی کو مشیر اور کسی کو معاون خصوصی۔ ایسے حالات میں کہ جب عوام کمر توڑ مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں۔ حکومت کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں، بجٹ خسارہ آسمان کو چھو رہا ہو، سرکاری کاموں کو پورا کرنے کے لیے ہر ماہ اربوں روپے قرض لینا پڑتا ہو۔ ایسے میں وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی کی فوج جمع کرنا ناقابل فہم ہے اور شرمناک بھی۔
اخراجات کو پورا کرنے کا ایسی صورت میں حکومت کو یہ راستہ نظر آتا ہے کہ عوام پر جہاں جہاں ہوسکے ٹیکس لگایا جائے یا ٹیکس میں اضافہ کردیا جائے۔ مثلاً کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے عالمی معیشت سست روی کا شکار ہے اور تیل کی مصنوعات کی قیمتیں گر گئی ہیں۔ فروری کے مہینے میں یہ کمی 19 فی صد ہوئی، جب کہ پاکستان میں پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل وغیرہ کی قیمتوں میں صرف 4 فی صد کمی ہوئی اور اس طرح حکومت نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کو اپنی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بنادیا۔ وہ اس طرح کہ پٹرولیم لیوی کے نام سے جو ٹیکس فی لیٹر پٹرول پر 15 روپے وصول کرنا تھا وہ اب 19.25 روپے ہوگیا۔ یہی ٹیکس ڈیزل پر 18 روپے لیا جاتا تھا، مارچ کے مہینے سے حکومت اب 25 روپے وصول کرے گی، اس طرح اندازاً حکومت نے اپنے لیے 10 ارب روپے ماہانہ کا انتظام کرلیا ہے۔
دوسرا راستہ بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کا جو حکومت کو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ ترقیاتی اخراجات میں کمی کردی جائے۔ سال 2019-20 کو جو وفاقی بجٹ ہے اس میں 6 ہزار ارب روپے کے پورے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات 1152 ارب روپے ہیں یہ وہ رقم ہے جس کا تھوڑا بہت حصہ تعلیم، صحت، پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر وغیرہ میں لگایا جاتا ہے۔ یہ رقم جو پہلے ہی پورے بجٹ میں 15 سو فی صد ہے کیوں کہ بڑا حصہ تو قرضوں کی واپسی اور دفاع پر لگ جاتا ہے۔ اس میں حکومت کمی کردیتی ہے اور اسکولوں، کالجوں اور سرکاری اسپتالوں کا جو حال ہے جہاں نہ اسکولوں میں طلبہ کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر ہے اور نہ اسپتالوں میں دوائیاں وہی بجٹ اور کم کردیا جاتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ ہوتا ہے اور پاکستان کا متوسط اور غریب طبقہ بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو لوگ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، جب کہ دوسرے ممالک میں حکومت تعلیم اور علاج کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اسکولوں اور اسپتالوں کا بہترین انتظام کرتی ہے۔
حکومت اب تعلیم اور صحت جیسے معاملات کو چھوڑ کر 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے وعدے کررہی ہے اور یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ سال 2020ء گھروں کی تعمیر اور روزگار کی فراہمی کا سال ہے اس میں سے دو ماہ گزر چکے ہیں، دیکھتے ہیں باقی دس ماہ میں کیا ہوتا ہے۔