وجاہت مسعود اور اسلام کے احیا کا خوف

776

وجاہت مسعود جنگ کے کالم نگار اور ’’سابق کمیونسٹ‘‘ ہیں۔ ان کے ’’سابق کمیونسٹ‘‘ ہونے کا قصہ یہ ہے کہ جب تک کمیونزم غالب نظاموں میں سے ایک تھا اور آدھی دنیا اس کے زیر تسلط تھی تو وجاہت مسعود کمیونزم اور دنیا کی سب سے بڑی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین کے گُن گاتے تھے۔ مگر کمیونزم تحلیل اور سوویت یونین منہدم ہوا تو وجاہت مسعود نے بہت سے ’’ترقی پسندوں‘‘ کی طرح اپنا ’’کعبہ‘‘ بدل لیا۔ وہ کمیونزم کمیونسٹ نظام اور کمیونسٹ ریاست کو گالیاں دینے لگے۔ اب وہ خیر سے امریکا اور یورپ اور ان کی ’’جمہوریت‘‘ اور ’’منڈی کی معیشت‘‘ کے راگ الاپتے ہیں۔ البتہ اسلام اور اس کی علامتوں سے انہیں کل بھی نفرت تھی اور آج بھی نفرت ہے۔ وہ اپنے کالموں میں گاہے گاہے اس نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مگر ملفوف الفاظ میں یعنی ڈھکے چھپے طریقے سے۔ ان کے ایک حالیہ کالم کا اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’عزیزو! انفرادی طور پر ہمارے لوگ بہت نفیس ہیں۔ قوم کے طور پر ہم پھسڈی ہیں۔ چند کمزوریاں ہمارے آڑے آتی ہیں۔ ہماری اُمنگیں جدید ہیں اور ہم نے جدیدیت سے دشمنی پال رکھی ہے۔ جدیدیت کا اکل و شرب یا لباس سے تعلق نہیں۔ جدیدیت امکان کے احترام کو کہتے ہیں۔ دوسرے ہم نے احیا پسندی کا شوق پال رکھا ہے۔ وقت کے پانیوں پر واپسی کا سفر نہیں ہوتا۔ ماضی ہماری میراث ہے لیکن ماضی ہمیں مستقبل دینے سے قاصر ہے۔
تیسری خامی یہ کہ ہم نے پاکستان میں اخلاقی جرأت کو جرم قرار دے رکھا ہے۔ اختلاف کو احترام دیے بغیر رائے عامہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پریس ریلیز کی سطح پر اُتر آتی ہے۔ تھوڑے کہے کو بہت جانیے۔ جنون ہوش منڈی نہیں ہے۔ شاعر نے یک گونہ وارفتگی میں جنون کی ہوا باندھی تھی۔ مفاد پرست جعل سازوں نے جنون کی قوالی چھیڑ دی۔ گھاگ صحافیوں نے اپنے آپ کو خیالی گھوڑے پر بٹھا دیا۔ عیار اور حراف پیرانِ تسمہ پانے آپ پر سواری گانٹھی۔ دل کا کہا اور اندر کی آواز تو گاندھی جی کا طور تھا۔ ہمارے بابائے قوم دلیل مانگتے تھے۔
(روزنامہ جنگ 25 فروری 2020ء)
کہنے کو یہ وجاہت مسعود کے کالم کی صرف 21 سطور ہیں مگر ان 21 سطور میں جہالت اور گمراہی کی ایک ایسی داستان موجود ہے جس کے رد میں ڈیڑھ سو صفحے کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مگر فی الحال ہم ایک کالم پر اکتفا کررہے ہیں۔
وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ ہماری اُمنگیں جدید ہیں مگر ہم نے جدیدیت سے دشمنی مول لے رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ایک ملک میں جدیدیت کو مثالیہ یا Ideal بنا کر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے۔ جدیدیت ہمارے مذہب کی دشمن ہے، ہماری تہذیب کی دشمن ہے، ہماری سماجیات کی دشمن ہے، ہماری نفسیات کی دشمن ہے، ہمارے جذبات کی دشمن ہے۔ اب اس بات کو دوسرے الفاظ میں سمجھیے۔ جدیدیت خدا کی منکر ہے، مذہب کی منکر ہے، شریعت کی منکر ہے، انسان کے بندہ ہونے کی منکر ہے، عبادت کی منکر ہے۔ اس کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان کسی خدا اور کسی مذہب کا پابند نہیں۔ وہ اپنی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کو جس طرح بسر کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ مگر وجاہت مسعود اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ایک ملک کے اندر ملک کے ایک بڑے اخبار میں اسلام دشمن نظریے کو Ideal بنا کر پیش کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جس طرح ان کی رال جدیدیت پر ٹپکتی ہے اسی طرح پورے معاشرے کی رال جدیدیت پر ٹپکنے لگے۔ جدیدیت کا ایک مفہوم ’’مغربیت‘‘ بھی ہے مگر سابق کمیونسٹ اور جدیدیے شعوری طور پر مغربیت کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ وہ جدیدیت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ تو صرف ملک و معاشرے کو ’’ترقی یافتہ‘‘ بنانے کی بات کررہے ہیں۔ ان کا مقصد مذہب کی نفی نہیں ہے۔ ویسے وجاہت مسعود یہ بھی تو بتادیں کہ پاکستان میں کون جدیدیت کا مخالف ہے؟ ہمارے یہاں تو بعض مُلا اور مولوی تک جدیدیت کے اساسی مقدمات سے آگاہ نہ ہونے کے باعث جدیدیت کے پرستار بنے ہوئے ہیں۔
وجاہت مسعود نے لکھا ہے کہ جدیدیت ’’امکانات‘‘ کا نام ہے۔ تو کیا اسلام ’’امکانات‘‘ کا نام نہیں؟ اسلام نے علم کی جتنی بڑی روایت پیدا کی دنیا میں کسی مذہب اور کسی ازم نے علم کی اتنی بڑی روایت پیدا نہیں کی۔ مسلمانوں کا عظیم الشان مذہبی ادب اسلام کے ’’امکانات‘‘ کی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں نے فارسی اور اردو میں شاعری کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ پوری دنیا کی شاعری مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیا یہ اسلام کے امکانات کا اظہار نہیں؟ مسلمانوں نے فکر و عمل کے ہزاروں تاج محل تخلیق کیے کیا یہ اسلام کے امکانات کی شہادت نہیں؟ مغربی دانش وروں رابرٹ بریفالٹ اور مائیکل مورگن ہملٹن نے اپنی تصانیف Making of Humanity اور The Lost- History میں اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں کے علوم و فنون سے استفادے کے بغیر مغرب، مغرب بن ہی نہیں سکتا تھا۔ کیا یہ اسلام کے امکانات کا ثبوت نہیں۔ مسلمانوں نے آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کیا اور اس پر حکومت کی، کیا یہ اسلام کے امکانات کا اظہار نہیں؟ بلاشبہ جدیدیت کے اپنے امکانات ہیں مگر جدیدیت کے سارے امکانات خدا اور مذہب کے انکار پر کھڑے ہیں۔ خدا اور مذہب کے انکار کے بعد اگر مسلمانوں کو پوری زمین کیا پوری کائنات کی حکمرانی بھی مل رہی ہو تو مسلمان اس حکمرانی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ یہ بھی اسلام کے ’’امکانات‘‘ میں سے ایک ’’امکان‘‘ ہے۔ جدیدیت اور اس کے ادنیٰ غلام اس ’’امکان‘‘ کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ وجاہت مسعود کو آج تک کبھی اسلام کے امکانات کیوں نظر نہیں آئے اور وہ کب اسلام کے امکانات کا ’’احترام‘‘ کریں گے؟۔
وجاہت مسعود کا یہ فقرہ بھی بڑا معنی خیز اور اسلام پر ایک بڑا حملہ ہے۔
’’ہم نے احیا پسندی کا شوق پال رکھا ہے‘‘۔
آپ اس فقرے کا مفہوم اور اس مفہوم میں موجود اسلام کی نفرت تک پہنچے؟ وجاہت مسعود کہہ رہے ہیں کہ یہ جو پاکستان میں اسلام اور اسلامی تہذیب کے ’’احیا‘‘ کی بات ہوتی ہے وہ ایک ایسا ’’شوق‘‘ ہے جو ہمیں ’’جدید‘‘ یعنی سیکولر، لبرل، کیونسٹ یا مادی معنوں میں ترقی یافتہ نہیں ہونے دیتا۔ تو کیا اسلام اور اسلامی تہذیب کے احیا کی بات کوئی ’’شوق‘‘ ہے۔ جیسے سگریٹ پینے کا شوق، پان کھانے کا شوق۔ وجاہت مسعود کی تعلیم و تربیت کے لیے عرض ہے کہ اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سے دو حرکتیں موجود ہیں۔ ایک ’’مرکز جُو‘‘ حرکت اور ایک ’’مرکز گریز‘‘ حرکت۔ اسلامی تاریخ جب ’’مرکز جُو‘‘ حرکت کے زیر اثر آتی ہے تو وہ کسی مجدّد یا تاریخی حالات کے زیر اثر ’’احیا‘‘ کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ احیا مسلمانوں کا ’’شوق‘‘ نہیں ان کی تاریخ کا ایک ’’اصول حیات‘‘ ہے۔ ویسے احیا کا ’’شوق‘‘ تو یورپ کو بھی بہت ہے۔ جدید یورپ خود کو ’’یونانی تہذیب‘‘ کا ’’حاصل‘‘ کہتا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ جدید یورپ یا جدید مغرب کی صورت میں یونان کی قدیم فکر یا قدیم تہذیب کا ’’احیا‘‘ ہوا ہے۔ وجاہت مسعود نے Renaissance کی اصطلاح کبھی نہ کبھی ضرور پڑھی ہوگی۔ اس کا مطلب ہی یونان کی قدیم فکر اور فنون کا احیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یورپ باطل کے ’’احیا‘‘ کا شوق پال سکتا ہے اور وجاہت مسعود کو اس احیا پر کوئی اعتراض نہیں مگر مسلمان اسلام اور اسلامی تہذیب کا احیا چاہیں تو وہ گردن زدنی قرار پاتے ہیں۔ اقبال کا شعر یاد آیا۔
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر
وجاہت مسعود نے یہ بھی لکھا ہے کہ وقت کے پانیوں پر واپسی کا سفر نہیں ہوتا۔ ماضی ہماری میراث ہے لیکن ماضی ہمیں مستقبل دینے سے قاصر ہے۔ ویسے تو وجاہت مسعود مسلمانوں کی فرقہ بندی پر طنز کرتے رہتے ہیں مگر خود انہوں نے ماضی، حال اور مستقبل کو فرقوں میں بانٹ کر انہیں ایک دوسرے سے الگ کرلیا ہے۔ بھائی ماضی، حال اور مستقبل ایک وحدت ہیں۔ ماضی کے بغیر حال اور حال کے بغیر مستقبل کا کوئی وجود نہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کا ماضی ان کے لیے ایک ’’تحرک‘‘ ہے راستے کی ’’رکاوٹ‘‘ نہیں۔ اقبال نے ماضی سے متاثر ہو کر شاعری کا ’’تاج محل‘‘ تعمیر کیا۔ مولانا مودودی نے ماضی سے متاثر ہو کر ’’علم کلام‘‘ کی نئی دنیا تخلیق کی۔ مسلمانوں نے سیدنا عمرؓ کے زمانے میں وقت کی دو سپر پاورز کو شکست دی۔ عہد حاضر میں مسلمانوں نے ماضی سے متاثر ہو کر افغانستان میں وقت کی دو سپر پاورز سوویت یونین اور امریکا کی درگت بنا ڈالی۔ مگر وجاہت مسعود فرماتے ہیں کہ ماضی ہمیں کوئی مستقبل نہیں دے سکتا۔
وجاہت مسعود نے اقبال کا نام لیے بغیر ان کا ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’شاعر نے یک گونہ وارفتگی میں جنون (یعنی عشق) کی ہوا باندھی تھی۔ مفاد پرست جعل سازوں نے جنون (یعنی عشق) کی قوالی چھیڑ دی‘‘۔ وجاہت مسعود کہہ رہے ہیں کہ اقبال عشق وغیرہ کے قائل تھوڑی تھے۔ انہوں نے ’’وارفتگی‘‘ میں اس کا ذکر دیا مگر مفاد پرستوں نے اس ذکر کو قوالی میں ڈھال لیا۔ جھوٹ، مکر، فریب، تہمت، کمیونسٹوں، سیکولرسٹوں، لبرل عناصر اور ترقی پسندوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ وجاہت مسعود نے مذکورہ بالا فقروں میں بھی اسی ’’آرٹ‘‘ سے کام لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی شاعری عشق یا جنون کی تعریف اور اس کے مقابلے پر عقل کی مذمت سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اقبال نے عشق کی تعریف ’’وارفتگی‘‘ میں نہیں پورے ’’شعور‘‘ کے ساتھ کی ہے۔ انہوں نے عقل کی مذمت بھی ’’وارفتگی‘‘ میں نہیں پورے فہم کے ساتھ کی ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال کیا کہہ رہے ہیں۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدئہ تصورات
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حْسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجْود میں بدر و حْنَین بھی ہے عشق
٭
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافرو زندیق
٭
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات‘ عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال عشق ہے پنہاں جواب
٭
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
٭
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
٭
تازہ مرے ضمیر میں پھر معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
یہ اقبال کی شاعری سے پیش کی گئی ’’چند مثالیں‘‘ ہیں۔ ہم یہاں ایسی مثالوں کا انبار لگا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کے مذکورہ اشعار کیا بتارہے ہیں؟ یہ کہ انہوں نے عشق کی تعریف اور عقل کی مذمت یونہی ’’وارفتگی‘‘ میں کردی۔ تجزیہ کیا جائے تو اقبال کے مذکورہ بالا اشعار اور ان جیسے سیکڑوں شعروں کی پشت پر اسلام کی پوری فکری روایت اور پورا تہذیبی و تاریخی تجربہ کھڑا ہوا ہے۔
وجاہت مسعود نے یہ بھی فرمایا ہے کہ دل کا کہا اور اندر کی آواز تو گاندھی جی کا طور تھا ہمارے بابائے قوم تو دلیل مانگتے تھے۔ ہماری تہذیب میں دل حکمت کی علامت یا Seat of Wisdom کا استعارہ ہے۔ اسی طرح ’’اندر کی آواز‘‘ کا مطلب ہماری تہذیب میں ’’ضمیر‘‘ کی آواز ہے۔ ظاہر ہے دل اور ضمیر کی آواز کو وہی لوگ پسند کرسکتے ہیں جن کو حکمت اور ضمیر سے محبت ہو۔ حکمت اور ضمیر سیکولر، لبرل اور سابق کمیونسٹوں کے لیے کوئی دلکشی نہیں رکھتے۔ جہاں تک قائد اعظم کا تعلق ہے تو بلاشبہ وہ دلیل کو پسند کرتے تھے مگر قائد اعظم کی دلیل بھی اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے نمودار ہوتی تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال دو قومی نظریہ ہے۔ جس عہد میں قائد اعظم نے دو قومی نظریے کا پرچم بلند کیا اس زمانے کی ’’عقلی دلیل‘‘ تو یہ تھی کہ قومیں جغرافیے، زبان اور نسل سے وجود میں آتی ہیں۔ مگر قائد اعظم نے اس ’’دلیل کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں دلیل پسند آئی تو اسلام کی دلیل جو کہتا ہے مسلمانوں کا تشخص اسلام ہے۔ نسل، زبان یا جغرافیہ نہیں۔ ویسے وجاہت مسعود صاحب سے عرض یہ ہے کہ وہ زیادہ ’’دلیل‘ دلیل‘‘ نہ بگھارا کریں۔ والٹیئر نے کہیں لکھا ہے کہ دلیل ایک طوائف کی طرح ہوتی ہے جس کے پاس عقل کی دولت زیادہ ہوتی ہے اس کے پاس چلی جاتی ہے۔ عام طور پر شرفا طوائفوں سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو خود وجاہت مسعود بھی مزاجاً ’’دلیل‘‘ کو پسند نہیں کرتے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ ان کے کالم کی ہر سطر میں ایک ’’بیان‘‘ موجود ہے۔ ان کے پورے کالم میں دلیل نے کہیں بھی اپنا ’’جلوہ‘‘ نہیں دکھایا۔