سابق چیف آف آرمی اسٹاف
حقیقت میں تو یہ منصوبہ آج سے آٹھ سال قبل 2012ء میں اس وقت آنا چاہیے تھا جب امریکا پر واضح ہو گیا تھا کہ وہ افغانستان کی جنگ ہار چکا ہے۔ انہوں نے سینیٹ کی افغانستان کمیٹی کے سربراہ رچرڈ آرمیٹیج کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان بھیجا۔ وہ مجھ سے ملے اور ہم نے طالبان کو مذاکرات کے لیے اپنے نمائندے نامزد کرنے پر رضامند کر لیا تھا لیکن پینٹاگون نے آرمیٹیج کو مزید پیش رفت سے روک دیا۔ لیکن اب بھی ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے پر عمل درآمدکے حوالے سے اتنی دیر نہیں ہوئی۔
اس منصوبے کا اہم پہلو طالبان کے جانب سے امن کی ضمانت سے اٹھارہ ماہ کے عرصے میں امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلا مکمل کرنا ہے اور افغان حکومت کی تحویل سے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی ہے۔ اس منصوبے میں منفی پہلووں کے ساتھ ساتھ مثبت اشارے بھی ہیں جو امن کی راہوں کا تعین کریں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ منفی پہلووں کے مقابلے میں مثبت پہلووں کو سبقت حاصل ہوگی۔ آئیے دونوں پہلووں کا تجزیہ کرلیتے ہیں:
منفی پہلو :٭ امریکی انخلا کا یہ منصوبہ بھارت کے لیے خاصے صدمے کا باعث بنا ہے۔ لہٰذا این ڈی ایس (NDS) اور را (RAW) باہمی اشتراک سے پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں دہشت گرد کاروائیاں کر کے طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ بھارت اس منصوبے کوآئی ایس آئی کی کامیابی اور پاکستان کی پرسکون مغربی سرحدوں کی حقیقت ہضم نہیں ہو رہی ہے۔
٭ ا ندرون ملک‘ اشرف غنی‘ جنگی سردار اور دیگر چھوٹے چھوٹے گروپ ملک میں طالبان کی حکومت کے قیام کی مخالفت کریںگے۔ ان کی کوشش ہوگی کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کے ذریعے انٹرا افغان مذاکرات ناکام ہو جائیں۔ اگر انٹرا افغان مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو یہ بات مستقبل میں افغانستان میں حکومت کے لیے مضبوط بنیاد بنے گی۔
٭ امریکا بذات خود بھی افغانستان میں اسلامی مملکت کے قیام کی راہ میں مزاحمت کرے گا کیونکہ امن منصوبے میں سترہ مرتبہ ان الفاظ کی تکرار کی گئی ہے کہ ’’امریکا افغانستان میں اسلامی مملکت کے قیام کو منظورنہیں کرتا‘‘۔ مزید برآں منصوبے پر کسی امریکی حکومتی عہدیدار کے دستخط بھی نہیں ہیں‘ تاکہ حکومت کے لیے بعد میں یوٹرن لینا آسان ہو۔
٭ ایک خاص مقصد کی خاطر امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا کے لیے اٹھارہ ماہ کے عرصے کی شرط رکھی گئی ہے اور درپردہ عزائم کی خاطر اچھی خاصی تعداد میں فوج موجود رہے گی۔ یہ ایک سازش ہے‘ اسی وجہ سے ایران نے اس منصوبے کو مستردکر دیا ہے اور ترکی نے بھی روس کو شام سے نکل جانے کا کہا ہے۔
٭ 1989-90ء میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد جن ممالک نے وہاں پر اسلامی مملکت کے قیام کی مخالفت کی تھی؛ وہی اب بھی اس امر کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ ایک جہادی افغانستان؛ انقلابی ایران اور اسلامی پاکستان مل کر ایک تذویراتی محور بن جائیں گے جو تمام اسلامی دنیا کی سلامتی کی ضمانت ہوگا۔
مثبت پہلو : منصوبے کے مثبت پہلو زیادہ مضبوط ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ منفی پہلووں پر مثبت پہلووں کو سبقت حاصل ہو گی۔
٭ امریکی اس طویل جنگ سے تھک چکے ہیں اور طالبان کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی شرمناک شکست پر افسردہ ہیں۔ وہ ’’باعزت انخلا چاہتے ہیں‘ قبل اس کے کہ انہیں ذلت آمیز پسپائی پر مجبور ہونا پڑے۔ افغانستان میں امریکا کو ویتنام جیسی صورت حال کا سامنا ہے‘‘۔ امریکا افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن شرمندگی سے بچنے کے لیے ہی اس نے فوجوں کے انخلا کے لیے اٹھارہ ماہ کی مدت مانگی ہے۔
٭ طالبان سے متعدد ضمانتیں مانگی جا رہی ہیں مگر ان کی قوت منتشر ہے اوران کی حکمرانی میں کوئی ادارہ جاتی نظم نہیں ہے کہ وہ ایسی ضمانتیں اتنی جلدی فراہم کر سکیں۔ انہیں استحکام حاصل کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ یہی وہ ’’خطرناک وقفہ‘‘ ہے جس کو استعمال کر کے امن مخالف قوتیں‘ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے کوشش کریں گی۔
٭ وقت اور ماحول (Time and Space) کو جنگی نکتہ نگاہ سے بڑی اہمیت حاصل ہے اور ان دونوں عناصرکو طالبان نے بڑی دانش مندی سے استعمال کیا ہے۔ امریکا کو فضائی سبقت حاصل ہے لیکن یہ برتری جنگ میں فتح کے لیے مددگار نہیں ہے۔ چالیس سالہ ظالمانہ تصادم کے باوجود طالبان جنگ سے تھکے نہیں اور حالیہ دنوں میں اشرف غنی کی فوجوںکے خلاف انہوں نے تیرہ صوبوں میں کامیاب کاروائیاں کرتے ہوئے تینتیس اہداف کو نشانہ بنایا ہے جبکہ امریکا نے فضائی کاروائیاں کر کے طالبان کو حکومتی فوجوں کے خلاف حملوں سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔
٭ 1989-90ء کے عرصے میں مجاہدین کے سات جنگی کمانڈر اور دوسرپرست تھے‘ آئی ایس آئی اور سی آئی اے جبکہ اس وقت ان کا صرف ایک کمانڈر ہے اور وہی سرپرست بھی ہے اور رہبر بھی ہے۔ طالبان کی کمانڈ کا شمالی ڈھانچہ مزار شریف سے بدخشاں تک کے علاقے ملا عمر کے بیٹے کی کمان میں ہیں اور ہرات سے نورستان تک کے جنوبی علاقے سراج الدین حقانی کی انتہائی مضبوط کمان میں ہیں۔ طالبان کی کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر صوبہ قندوز میں ہے۔ افغانستان کے اسی فی صد علاقوں پر انہیں کنٹرول حاصل ہے جہاں پر شریعتی قوانین نافذ ہیں۔ یعنی ایک پورا حکومتی نظام موجود ہے۔
٭ طالبان کے جنگجووں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو گزشتہ چالیس سال کے دوران پیدا ہوئے اور جنگ کے سایے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ یہ جنگجو نہ صرف بہادر اور سخت جان ہیں بلکہ ملا عمر کے نظریے سے غیر متزلزل طور پر منسلک ہیں۔ 2003 میں میرے ایک سوال کے جواب میں ملا عمر نے اپنے نظریے کی تشریح ان الفاظ میں کی تھی:
’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آزادی کے لیے جنگ جاری رکھیں گے کیونکہ ہمارا قومی نظریہ حیات‘ روایات اور ملی غیرت قابض فوجوں کے ایجنڈے کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہم جنگ جاری رکھیں گے اور ان شاء اللہ فتحیاب ہوں گے اور ملک میں ایسی اسلامی حکومت قائم کریں گے جو نہ صرف ہمسایہ ممالک بلکہ دیگر تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات رکھے گی۔ ’’پاکستان نے اس موقع پر ہمارا ساتھ نہیں دیا لیکن اس کے باوجود ہم ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مل کر اپنے قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں گے‘‘۔
سراج الدین حقانی کی حالیہ تحریر میں ملا عمر کے اس نظریے کی واضح تصویر دکھائی دیتی ہے جو سیاسی بصیرت کی غماز ہے اور افغانستان میں آئین و قانون کے تابع حکومت کے قیام کی ضمانت دیتی ہے اور عوام کے جذبہ حریت کی مکمل پاسداری کی بھی یقین دہانی کراتی ہے جنہوں نے صرف چار دہائیوں کے مختصر عرصے میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ٹرمپ کا منصوبہ پیچیدگیوں اور فریب کا مجموعہ ہے جس میں قوت اور کنٹرول پاس رکھنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کو روک بھی سکے اور امریکا کے پرامن انخلا کی بھی ضمانت ہو۔ یہ دو اہداف باہم متصادم ہیں جو اس قسم کے باعزت انخلا کو ناکام بنادیں گے۔ ٹرمپ کو روس کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جنہوں نے 1989 میں افغانیوں کے ساتھ باوقار اور باہمی خیر سگالی کی بنیارکھ کر انخلا ممکن بنایا۔