افغانستان کی منزل اسلامی حکومت

441

افغان حکومت کو اچھی طرح احساس ہو گیا ہے کہ اب وہ مکمل بے سہارا ہونے جا رہی ہے۔ طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کے اعلان کے بعد طالبان کے چند حملوں کو وہ برداشت نہیں کر سکے اور قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے رضامندی کا اظہار کردیا۔ 20 برس امریکی سایہ میں حکمرانی کرنے کی وجہ سے امریکی حیلے بھی سیکھ لیے ہیں چنانچہ افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے عدم تشدد کی ضمانت ضروری ہے۔ تاہم ان کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ سخت دبائو میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان قیدیوں کو جیل میں رکھنے کی خواہش نہیں۔ رہائی شفاف مکینزم کے تحت ہونی چاہیے اور لگے ہاتھوں مذاکراتی ٹیم بھی تیار ہو رہی ہے۔ افغانستان کی امارت اسلامیہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کے قانونی حکمران طالبان ہیں۔ ملا ہبت اللہ اخوانزادہ ہی حاکم ہیں۔ معاہدہ صرف غیر ملکی افواج کے انخلاء کا تھا اس سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ امریکا سے معاہدے کے باوجود اسلامی حکومت کے قیام تک مسلح جہاد جاری رہے گا۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ مستقبل کی حکومت سے بدعنوان عناصر کو دور رکھا جائے گا۔ یہ بہت اہم اعلان ہے اگرچہ افغانستان میں ہر کام اس طرح نہیں ہوتا جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے لیکن پاکستانی قوم اس کو روک بھی نہیں سکتی۔ برسوں سے ایک حکومت کے جاتے ہی اس کے بدعنوان عناصر نئی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں اور بدعنوانی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ موجودہ حکمران پارٹی تو اس کا شاہکار ہے۔ طالبان قیادت نے جو اصل پیغام دیا ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان کی منزل اسلامی حکومت کا قیام بلکہ بحالی ہے۔ امریکا نے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرکے قبضہ کیا تھا اب وہ جا رہا ہے تو 20 سال پرانی حکومت ہی بحال ہوگی۔ افغان صدر اشرف غنی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جب امریکا طالبان کے سامنے نہیں ٹہر سکا تو ان کی حکومت کی کیا اوقات ہے۔ اب انہیں تیزی کے ساتھ طالبان قیدیوں کی رہائی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ دوسری جانب طالبان نے جو عام معافی دی ہے اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ اس کا دائرہ کہاں تک ہے۔ کیا افغان حکومت بھی اس میں شامل ہے۔ یا صرف عام افغان عوام کے لیے عام معافی ہے۔ کیونکہ افغان حکومت میں شامل بعض عناصر تو کسی صورت افغانستان میں اسلامی حکومت نہیں چاہتے خصوصاً وہ لوگ جو امریکی چھتری تلے حکمران رہے ان کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت بھی اپنی ذمے داری ادا کرے اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے افغان امن عمل میں سہولت کاری کی ہے تو سابق حکمران جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کے اغوا اور امریکیوں کو فروخت میں بھی تو سہولت کاری کی گئی تھی۔ اب پاکستانی حکومت نے طالبان کو دہشت گرد کے بجائے ایک فریق تسلیم کیا ہے تو اپنی قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کے لیے بھی سہولت کاری کا فریضہ انجام دے۔ کیا اس کے لیے بھی پانچ ہزار ڈالر چاہییں۔ پاکستانی قوم اس کام کے لیے پانچ کروڑ ڈالر دینے کو تیار ہے حکومت ایک قدم تو بڑھائے۔