صاحبو! ہر علم، ہر عالم، ہر بشر، جن، بھوت، نباتات، حیوانات اور جمادات سے پوچھ کر دیکھ لیجیے اگر وہ میرا جسم میری مرضی کی کوئی شریفانہ تعبیر بتاسکے۔ اس مزاج کی عورتیں کتنی بیزار کردینے والی ہوتی ہوں گی۔ تصور کیجیے، جھر جھری آجائے گی۔ ایسی ہی ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ جج نے پوچھا تم نے کیا چوری کیا تھا؟ عورت بولی ’’ایک ڈبہ جس میں چھ اسٹر ابری تھیں‘‘۔ جج نے فیصلہ سنایا ’’چھ مہینے کی سزا‘‘ جج ابھی جملہ پورا نہیں کرپایا تھا کہ دروازے سے آواز آئی ’’ٹھیر جائیے جج صاحب، فیصلہ سنانے میں جلدی نہ کیجیے۔ اس عورت نے ایک تھیلی بھی چوری کی تھی‘‘۔ جج نے پوچھا ’اس میں کیا تھا‘‘۔ اس شخص نے جواب دیا ’’جج صاحب اس میں ایک کلو چنے تھے‘‘۔ جج نے پوچھا ’’تم کون ہو‘‘۔ جواب ملا ’’اس عورت کا شوہر‘‘۔
عورت مارچ کے شرکا کے بینرز پر لکھے نعروں کی حقیقت پر غور کریں تو وہ عورت تصور میں آتی ہے جسے اس کے شوہر نے سونے کے جھمکے دیے تھے۔ عورت جھمکے پہن کر ایک ایک پڑوسن کے گھر گئی، رشتے داروں کو اپنے گھر مدعو کیا، سر ہلا ہلا کر بات کی، جھمکوں کو ہاتھ لگا لگا کر کھیلتی رہی لیکن مجال ہے کسی نے جھمکوں کی طرف نظراٹھا کر بھی دیکھا ہو۔ تب عورت کو ایک ترکیب ذہن میں آئی۔ اس نے گھر کو آگ لگادی۔ پورا محلہ اکٹھا ہوگیا۔ بڑی تگ ودو کے بعد آگ بجھی۔ لوگوں نے پوچھا آگ لگنے سے کتنا نقصان ہوا۔ بولی ’’گھر کی ایک ایک چیز جل گئی بس یہ جھمکے باقی بچے ہیں‘‘۔ عورت مارچ کی شرکاء کے چہروں کی طرف دیکھیں تو بے فکری ہی بے فکری نظر آتی ہے۔ ان لوگوں کی طرح جن سے گرمی میں کام نہیں ہوتا۔ سردی میں بستر سے باہر نکلنے کو جی نہیں کرتا اور موسم خوش گوار ہو تو کس کافر کا کام میں دل لگتا ہے۔ بچپن میں فلموں میں بادشاہ کے دربار میں دو غلاموں کو مور کے پروں سے بادشاہ کو ہوا کرتے دیکھتے تو سوچا کرتے تھے یہ لوگ سردی میں کیا کرتے ہوں گے۔ عورت مارچ کی شرکاء اور بینر ز پر لکھے ان کے عزائم کو دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے ’’یہ گھروں میں کیا کرتی ہوں گی‘‘۔
کئی دنوں سے پاکستان دوقومی نظریے کی عملی تصویر نظر آرہا ہے۔ ایک قوم کا نظریہ ماروی سرمد ہے دوسری کا خلیل الرحمن قمر۔ خوش قسمتی سے ہم دونوں سے نا آشنا۔ خلیل الرحمن قمر کو سنا تو ایک دوست یاد آگیا جو اپنے منہ کے قطر سے بڑی گالیاں دیا کرتا تھا۔ فرق یہ ہے اس کے منہ سے گالیاں اچھی لگتی تھیں۔ غالب کے محبوب کی طرح سننے والا بے مزہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ ایک جاہل انسان تھا۔ لیکن گالیاں دینے پر صرف جاہلوں کا اجارہ تو نہیں عالم آن لائن کے اینکر اور ڈراما نویس بھی گالیاں دے سکتے ہیں۔ ماروی سرمد کو دیکھا تو پتا لگا کہ آٹا کیوں مہنگا ہو گیا۔ وہ رضائی لپیٹ کر بھی بیٹھی ہوں تو رضائی گرم نہ ہو۔ آئینے کے سامنے کھڑی ایک بہت موٹی عورت نے اپنے شوہر سے پوچھا ’’کیا میں بہت موٹی لگتی ہوں؟‘‘ خوامخواہ کی چخ چخ سے بچنے کے لیے شوہر نے کہا ’’نہیں تو بالکل نہیں تمہیں وہم ہوگیا ہے‘‘۔ بیوی خوش ہوگئی اترا کر بولی ’’پھر مجھے پہلے کی طرح گود میں اٹھا کر فریج تک لے کر جائو اور اپنے ہا تھوں سے آئسکریم کھلائو‘‘۔ شوہر نے بے بسی کے ساتھ بیوی کی طرف دیکھا اور کہا ’’ڈارلنگ تم یہیں بیٹھی رہو میں فریج اٹھا کر لاتا ہوں‘‘۔
عورت مارچ میں عورتوں کے حقوق کے لیے جو نعرے بلند کیے جارہے ہیں ان میں سے بیش تر نعرے درست ہیں لیکن نہ جانے کیوں جانے انجانے ان جائز مطالبات کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ وہ متنازع بن جائیں۔ یہ حقوق مانگنے سے زیادہ فساد پھیلانے کی کوشش بن گئے ہیں۔ اچھے خاصے مطالبات کا ستیاناس کردیا گیا ہے۔ اس پر بھی ایک لطیفہ سن لیجیے: ایک خاتون اسکول ٹیچر کی امتحانی مرکز میں ڈیوٹی لگی تو ایک عزیز نے کہا وہاں میرا بیٹا بھی پر چہ دے رہا ہے یہ رول نمبر ہے ذرا خیال رکھیے گا۔ ایک دن موقع پاکر محترمہ اس طالب علم کے پاس گئی۔ پوچھا ’’کوئی مشکل تو نہیں‘‘۔ اسلامیات کا پیپر تھا۔ لڑکے نے کہا ’’اس سوال کا جواب نہیں آرہا‘‘۔ انہوں نے دیکھا تو لکھاتھا ’’تین اولو العزم پیغمبروں کے نام لکھیے‘‘۔ خاتون ٹیچر کو خوف تھا کہ اگر جواب بتایا اور کسی نے دیکھ لیا تو بدنامی ہو جائے گی۔ اس نے سوچ کر آہستگی سے کہا ’’اپنے تینوں ماموئوں کے نام لکھ دو‘‘۔ وہ جا نتی تھی کہ اس کے تین ما موں ہیں جن کے نام ابراہیم، عیسیٰ اور موسیٰ ہیں۔ اگلے رائو نڈ میں خاتون ٹیچر نے لڑکے کے پرچے پر نظر ڈالی تو لکھا تھا ’’گڈو ماموں، ٹونی ماموں، اور چیکو ماموں‘‘۔
عورت مارچ عورتوں کے حقوق کے نام پر بڑی چالاکی کے ساتھ عورتوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے۔ پاکستانی ویسے ہی اس کام میں بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ اچھے اچھوں کو بے وقوف بنادیں اور وہ دیکھتا رہ جائے۔ صدر ٹرمپ ایک بڑے ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ ایک پاکستانی ویٹر ان کے قریب آیا اور بولا ’’سر میں پا کستانی ہوں۔ میرا نام سمیر ہے۔ میں نے اور میرے ملک نے آپ کی بہت خدمت کی ہے آپ میرا ایک کام کریں گے۔ مجھے آپ کی چھوٹی سی مدد درکار ہے‘‘۔ صدر ٹرمپ نے دلچسپی سے اس پاکستانی ویٹر کی طرف دیکھا اور بولے ’’بتائو میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں‘‘۔ ’’سر بات یہ ہے کہ تھوڑی دیر بعد ایک پا کستانی لڑکی مجھ سے ملنے آئے گی میرا اس سے رشتہ چل رہا ہے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو آپ مجھے پیار سے ’’ہیلو سمیر‘‘ کہہ دیجیے گا‘‘۔ صدر ٹرمپ راضی ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی آئی۔ سمیر کے پاس بیٹھی۔ صدر ٹرمپ نے وہیں سے آواز لگا ئی ’’ہیلو سمیر کیسے ہو؟‘‘ سمیر نے مڑکر صدر ٹرمپ کی طرف دیکھا اور کہا ’’دفع ہو جائو دیکھ نہیں رہے ہو میں مصروف ہوں‘‘۔
خواتین کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ہمیشہ نورانی ہیولے ہی ابھرتے ہیں۔ عورت کو ہم نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے مقدس رشتوں کے حوالے ہی سے دیکھا اور برتا ہے۔ یہ بڑے ہی پیارے رشتے ہیں جن کے لیے محنت کرکے، خون پسینہ بہا کر، عمر خرچ کرکے، کام کرکے خوشی ہوتی ہے۔ زندگی ان رشتوں کے حقوق، مطالبے پورے کرتے گزر جائے تو لگتا ہے مقصد حاصل ہوگیا۔ زندگی کامیاب ہوگئی ہے۔ کون ہے جو ان رشتوں سے وابستہ بوجھ کو اٹھا کر خوشی سے سرشار نہ ہوتا ہو۔ شوہر سے غلطی ہو جائے بیوی رونے لگے تو شوہر معافی مانگ لیتا ہے۔ بیوی سے غلطی ہو جائے شوہر کو غصہ آجائے۔ بیوی رونے لگے تب بھی شوہر معافی مانگ لیتا ہے۔ عورت مارچ کی شرکا نہ جانے کیوں مردوں کے اٹھائے ہوئے بوجھ بھی خود اٹھانا چاہتی ہیں۔ منٹو کی کھائی کمائی عورت بھی تقدیس کے ان رشتوں کے بارے میں ہمارے تصورات میں زیادہ مداخلت نہ کرسکی۔ لیکن عورت مارچ کے مطالبات نے ان حقوق اور ایک دوسرے سے وابستہ کاموں کا مفہوم ہی بدل دیا ہے۔ ایک خاتون بینک قرض لینے گئی۔ بینک منیجر بھی خاتون ہی تھی۔ اس نے پو چھا ’’آپ کیا کرتی ہیں؟‘‘ خاتون نے عاجزی سے جواب دیا ’’میں بھی آپ کی طرح منیجر ہی ہوں‘‘۔ منیجر خاتون نے یہ سنا تو خوشی سے آگے بڑھی اس سے ہاتھ ملایا۔ گھنٹی بجائی۔ چائے اور کیک لانے کا کہا۔ خاتون گرم گرم چائے کے ساتھ کیک کھا رہی تھی جو بہت لذیز تھا تو ایسے ہی منیجر خاتون نے پوچھا ’’آپ کہاں کی منیجر ہیں؟‘‘ خاتون نے جواب دیا ’’میں واٹس گروپ کی منیجر ہوں‘‘۔ یہ سن کر آپ کا کیا خیال ہے خاتون نے باہر نکلنے سے پہلے پورا کیک کھا لیا ہوگا؟
عورت مارچ پر ہم ایک سنجیدہ سا کالم لکھنا چاہ رہے تھے لیکن بہت سوچا کوئی سنجیدہ بات سجھائی نہ دی سوائے لطیفوں کے۔ اگر آپ اس موضوع پر سنجیدہ کالم پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کی کمی نہیں۔ کسی بھی اخبار کے ادارتی صفحے پر بقیہ کالم وہاں پڑھ لیجیے۔ پپو امتحان میں ایک لڑکی کے پرچے سے نقل کررہا تھا۔ ممتحن نے دیکھا تو دور بٹھا دیا۔ پپو کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو جواب کے آخر میں لکھ دیا ’’جواب کا بقیہ حصہ شبانہ کے پیپر میں دیکھ لیجیے‘‘۔