عنایت اللہ خان
بلدیاتی نظام کے ذریعے چونکہ عوام کی براہ راست خدمت اور ان کے مسائل زیادہ بہتر طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں اس لیے موجودہ دور میں اس نظام کو وفاقی اور وحدانی ہر دونوں جمہوری نظاموں کا جزو لاینفک سمجھا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ اختیارات کی (وفا قی اور صوبائی سطح سے) نچلی سطح پر منتقلی سے نہ صرف لوگوں کے مسائل براہ راست حل ہونے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس طرز عمل سے عوام کا جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں بدقسمتی سے بلدیاتی نظام اپنی جڑیں اس طرح مضبوط نہیں کر سکا ہے جس کا عکس دیگر جمہوری معاشروں میں نظر آتا ہے۔ بلدیاتی نظام کے اس عدم استحکام کی وجہ روایتی موروثی سیاستدانوں، خود سر بیورو کرویسی اور معاشرے کے با اثر طبقات کا اتحاد ہے جو کسی بھی صورت اپنے اختیارات سے دستبردار ہو کر یہ اختیارات عوام کے حقیقی نمائندوں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستانی آئین کا آرٹیکل 140Aملک کے چاروں صوبوں کو مالیاتی، سیاسی اور انتظامی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا پابند بناتا ہے لیکن بدقسمتی سے آئین کی اس دفعہ پر عمل درآمد کے حوالے سے ہماری سیاسی تاریخ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 32 ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ ریاست ملک میں بلدیاتی نظام کے قیام کی نہ صرف راہ ہموار کر ے گی بلکہ اس ضمن میں ہر ممکن سہولت اور تعاون بھی فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 37 بھی اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ ملک میں سماجی انصاف کو یقینی بنانے اور ریاستی وسائل سے عوام کو براہ راست مستفید کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کا ایک خاطر خواہ ڈھانچہ تشکیل دیا جائے گا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں صوبائی حکومتیں نہ صرف عوام کے اس بنیادی حق کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہیں بلکہ اس طرز عمل کے ذریعے آئین کا مذاق بھی اڑا رہی ہیں۔ بد قسمتی سے جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی نظام کو کبھی بھی اخلاص کے ساتھ پنپنے کا موقع نہیں دیا جبکہ دوسری جانب فوجی آمر بھی بلدیاتی اداروں کو اپنے اقتدار کی بیساکھیوں کے طور پر تو استعمال کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے بھی جمہوری نظام کا ایک اہم ٹیئر سمجھے جانے والے اس نظام کو کبھی بھی اس کے حقیقی تناظر میں نافذ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایک عام تاثر یہ تھا کہ وہ بلدیاتی اداروں کے ساتھ ماضی میں کیے جانے والے سوتیلے سلوک کا مداوا ایک بہتر، فعال اور عوام کے لیے حقیقی معنوں میں قابل قبول بلدیاتی نظام متعارف کرنے کی شکل میں کرے گی کیونکہ ایسا کرنا اس کے منشور اور تبدیلی کے ایجنڈے کا ایک اہم اور بنیادی نکتہ ہے لیکن حیران کن طور پر خیبر پختون خوا کے عوام سے دو دفعہ بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود وہ اب تک کم ازکم بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے نہ صرف تہی دامن نظر آتی ہے بلکہ اس طرز عمل کے ذریعے وہ جہاں آئین پاکستان سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے وہاں اسے اپنے وعدوں اور منشور کو پس پشت ڈالنے کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت صوبے میں جو بلدیاتی نظام نافذ کرانا چاہتی ہے وہ نہ صرف خود پی ٹی آئی کے منشور میں دیے گئے بلدیاتی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اس لولے لنگڑے نظام سے بلدیاتی نظام کی رہی سہی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہونے کا احتمال ہے۔
2013 میں پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی کی شراکت سے صوبے میں جو بلدیاتی نظام متعارف کرایا تھا۔ اس نظام کی تعریف جہاں عالمی بینک اپنی ایک رپورٹ میں کر چکا ہے وہاں اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین اپنی کتاب ـ”Governing the ungovernable” میں بھی اس نظام کی تعریف کرتے ہوئے اسے حقیقی معنوں میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی ایک مخلصانہ کاوش قرار دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ 2013 کے متذکرہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت صوبے کے تمام اضلاع میں تین درجات پر مشتمل بلدیاتی نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت 24محکموں کو اضلاع کے سپرد کر کے ان محکموں کا اختیار مقامی حکومتوں کو دیا گیا تھا جس سے عوامی فلاح و بہبود کے ایک نئے سماجی کلچر کا آغاز ہوا تھا۔ اس نظام کی ایک خاص اور منفرد بات یونین کونسل کو ختم کرتے ہوئے مقامی سطح پر نیبر ہوڈ اور ویلج کونسل کی ایک منفرد سطح کا متعارف کرایا جانا تھا جس کا حجم اور آبادی یونین کونسل سے کافی کم تھی جس کی وجہ سے اس نظام پر عوام کا اعتماد کافی حد تک بحال ہونے کے علاوہ ان تینوں درجات کو فنڈز کی مناسب تقسیم کے ذریعے حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ 2013 کے بلدیاتی ایکٹ کی ایک اور خاص بات 30فی صد ترقیاتی بجٹ کا ان بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کیا جانا تھا۔ واضح رہے کہ اس فنڈ کی تقسیم صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے کی جاتی تھی جس کا تعین آبادی، غر بت، ریونیو اور انفرا اسٹرکچرکی صورتحال کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا تھا۔ اس نظام کے تحت چار سال میں 70ارب روپے کی خطیر رقم مقامی حکومتوں کے ذریعے فلاح عامہ پر خرچ کی گئی تھی جو ایک ریکارڈ ہے حالانکہ یہ رقم مقامی حکومتوں کے حصے میں قانون کے تحت آنے والی کل رقم کا محض آدھا حصہ تھی۔
2001 کے بلدیاتی نظام کے برعکس 2013 کے بلدیاتی نظام میں ضلع و تحصیل ناظمین کے انتخابات میں پائی جانے والی خامیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ضلع اور تحصیل کونسلوں کو الیکٹورل کالج ڈکلیئر کیا گیا تھا جس سے نہ صرف بلدیاتی نظام کے تینوں درجات کے انتخابات میں شفافیت پیدا ہوئی تھی بلکہ اس سے عوام کا اس انتخابی نظام پر اعتماد بھی مزید بحال اور پختہ ہوا تھا۔ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اور خاص کر عمران خان نے اس بلدیاتی نظام کا ہر سطح پر کریڈٹ لینے کی کوشش کی، پی ٹی آئی کی قیادت اس نظام کو ایک انقلابی نظام قرار دیتے ہوئے اس کے ذریعے جہاں بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئی وہاں اس نظام کے بل بوتے پر وہ 2018 کے انتخابات میں غیر متوقع فتح سے بھی ہمکنار ہوئی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی جس کی قیادت یوٹرن لینے کے لیے کافی شہرت رکھتی ہے نے حیران کن طور پر 2013 کے بلدیاتی نظام میں بے تکی، غیر ضروری اور مبہم ترامیم کے ذریعے اس اچھے بھلے بلدیاتی نظام کا تیا پانچہ کرتے ہوئے اسے ایک لولے لنگڑے نظام میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نظام میں ضلعی انتظامیہ کو تو برقرار رکھا گیا ہے لیکن حیران کن طور پر بلدیاتی نظام کا ایک اہم درجہ سمجھے جانے والے ضلعی نظام کا ناقابل یقین طور پر خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس نئے نظام میں ضلعی انتظامیہ براہ راست صوبائی حکومت کو جوابدہ ہوگی نتیجتاً مقامی حکومتیں براہ راست صوبائی حکومت کے کنٹرول میں آ جائیں گی جس سے نہ صرف مقامی حکومتوں کی روح متاثر ہوگی بلکہ اس سے بلدیاتی اداروں میں صوبائی حکومت کی براہ راست مداخلت سے کئی پیچیدہ مسائل بھی جنم لیں گے۔ اس نئے بلدیاتی نظام میں صرف دو درجوں یعنی تحصیل اور ویلج و نیبر ہوڈ کونسلوں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس نئے نظام میں میونسپل اور سماجی خدمات کی ادائیگی کو صرف تحصیل کی سطح تک محدود کیا گیا ہے جبکہ تحصیل کی سطح پر تحلیل شدہ محکموں کو بھی ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول میں دیا گیا ہے جس سے تحصیل ناظم یا تو عضو معطل بن کر رہ جائے گا اور یا پھر اس کے اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان اختیارات کے استعمال اور باہمی کھینچا تانی سے ان دونوں سطحوں کے درمیان اختلافات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کا لازمی اثر خدمات کی فراہمی اور شفافیت پر پڑے گا جس کا خمیازہ عوام کو بد انتظامی کی شکایات کی صورت میں بھگتنا ہوگا۔ اس نظام کا ایک اور منفی پہلو تحصیل ناظم کے ہاتھوں میں کسی بھی متعلقہ ویلج یا نیبر ہوڈ کونسل کے ناظم کو اپنے عہدے سے ہٹانے کے اختیارات کا دیا جانا ہے حالانکہ 2013 کے نظام میں کسی بھی ناظم کو ہٹانے کے لیے عدم اعتماد کا جمہوری طریقہ کار اختیار کیا جاتا تھا۔ تحصیل ناظم کو یہ اختیار دینے سے جہاں ویلج اور نیبر ہوڈ کونسل کے ناظمین خود کو ہر وقت تحصیل ناظمین کی طرف سے تلوار کی نوک پر سمجھیں گے وہاں اس سے ان دونوں درجات کے درمیان بداعتمادی اور غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کے خدشات بھی پیدا ہوں گے نیز اس شق کی موجودگی سے ویلج و نیبر ہوڈ کونسل ناظمین خود کو غیر محفوظ اور کم تر بھی سمجھیں گے۔
اسی طرح ترمیم شدہ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی کونسل بجٹ منظور کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے کو ایسی صورت میں متعلقہ ناظم بجٹ تیار کر کے 30ایام کے اندر اندر اسے حتمی منظوری کے لیے لوکل گورنمنٹ کمیشن کے پاس بھیجے گا۔ اس طریقہ کار سے واضح طور پر بلدیاتی اداروں میں صوبائی حکومت کا عمل دخل بڑھے گا اور مقامی حکومتیں خود کو لوکل کونسل کمیشن اور صوبائی حکومت کے رحم وکرم پر سمجھیں گی جو نہ صرف بلدیاتی حکومتوں کے تصور کے خلاف ہے بلکہ یہ مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی خود مختاری دینے کی سوچ سے بھی انحراف ہے۔ اس نئے بلدیاتی نظام میں تحصیل ناظمین کا جماعتی بنیادوں پر براہ راست انتخاب بظاہر ایک مستحسن فیصلہ ہے لیکن اس ایکٹ میں ویلج اور نیبر ہوڈ کونسل کے ناظمین پر مشتمل تحصیل کونسلیں بنانے کے فیصلے کو کسی بھی لحاظ سے ایک جمہوری فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس واضح تضاد کا یہ نیا ایکٹ بنانے والوں کی جانب سے اب تک کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آسکا ہے جس سے یہ پورا ایکٹ شکوک و شہبات کے دبیز پردوں میں چھپا ہوا نظر آتا ہے۔ اس نئے ایکٹ کا ایک اور کمزور اور متنازع پہلو وزیراعلیٰ کو ویلج یا نیبر ہوڈ یا تحصیل کونسل کے ناظمین پر دیے جانے والے بے جا اختیارات ہیں جن کے تحت وزیر اعلیٰ ان ناظمین کو کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے اور ایسے کسی بھی حکم سے انحراف کی صورت میں وزیر اعلیٰ متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو متعلقہ کونسل کے تمام اختیارات ہاتھ میں لیکر مزید کاروائی کے احکامات جاری کر سکتا ہے جس سے نہ صرف متعلقہ بلدیاتی نظام کئی پیچیدگیوں کا شکار ہو جائے گا بلکہ اس سے اختیارات کی تقسیم اور فرائض کی ادائیگی کی روح بھی بری طرح متاثر ہوگی۔ نئے بلدیاتی نظام کے استحکام کے لیے نہ صرف ضلعی درجے کی بحالی ضروری ہے بلکہ اس میں موجودہ حالات اور ضروریات کے مطابق مناسب ترامیم بھی ضروری ہیں۔
اسی طرح نئے ایکٹ میں بلدیاتی اداروں میں صوبائی حکومت کے اختیارات بھی ختم کرتے ہوئے بنیادی جمہوریت کے ان اداروں کو حقیقی معنوں میں خود مختار بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح منتخب حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی اداروں کو تختہ مشق بنانے اور دیدہ ودانستہ بلدیاتی انتخابات کو تاخیر کا شکار بنانے کے کلچر کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آئین میں مناسب ترمیم کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو لازماً تین درجات پر مشتمل بنانے کے ساتھ بلدیاتی اداروں کے اختتام کے 90دنوں کے اندر اندر نئے انتخابات کو لازمی قرار دیتے ہوئے اس امر آئینی تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ حرف آخر یہ کہ موجودہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مسلسل جو ٹال مٹول کر رہی ہے اس سے اگر ایک طرف روزمرہ عوامی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف اس سے نچلی سطح پر عوام میں مایوسی اور اضطراب بھی بڑھ رہا ہے جب کہ تیسری جانب حکومت عام لوگوں کو اپنے اس بنیادی حق سے محروم رکھ کر اپنے مینڈیٹ کی توہین کی مرتکب بھی ہو رہی ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت عوام کو ان کے اس آئینی بنیادی حق سے آخر کب تک محروم رکھ سکے گی اور ایسا کرتے ہوئے وہ اس پردو مرتبہ اعتماد کرنے والے لاکھوں ووٹرز کو آخر کیسے اور کیونکر مطمئن کر سکے گی۔