ایران میں امریکا کی شکست

621

جاوید اکبر انصاری
امریکا نے ایران پر قبضہ 1952 سے 1979 تک شاہ کی پٹھو حکومت کے ذریعہ قائم رکھا۔ اس پورے دورانیے میں علمائے ایران عوامی اسلامی مزاحمتی جدوجہد کو منظم کرتے رہے اور 1975/76 تک ملک کے طول وعرض میں اسلامی اقتدار کی ایسی ادارتی صف بندی ممکن ہوگئی جس کے زیر اثر محلہ، بازار، درس گاہیں، مقامی اور مرکزی ریاستی انتظامیہ اور فوج کے کئی محکمے آگئے۔ جب انقلاب برپا کیا گیا تو علمائے اسلام کی قیادت میں ہر سطح پر مخلصین دین منظم بھی تھے اور متحرک بھی اور سامراجی معاشی اور ریاستی استبدا منتشر ہوچکا تھا۔
1979 کی سیاسی پسپائی سے مایوس ہوکر امریکا نے صدام حسین کے ذریعہ ایران پر حملہ کردیا اور جب صدام اسلامی انقلاب کو شکست دینے میں ناکام ہوگیا تو اس وقت سے امریکی سامراج نے ایران کے خلاف معاشی جنگ جاری کردی اور تین دہایاں ہونے کو آئیں یہ معاشی جنگ جاری ہے۔ اس معاشی جنگ میں امریکا شکستوں پر شکست کھا رہا ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے پٹھو بین الاقوامی ادارہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یو این ڈی پی وغیرہ اپنی روایتی بے غیرتی اور بے شرمی کے ساتھ مسلسل یہ جھوٹ پھیلارہے ہیں کہ ایرانی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے اور آج آناً فاناً ایران فنا ہوجائے گا۔ اسلامی انقلابیوں کے لیے ضروری ہے کہ اس بے غیرت دروغ گوئی کا پردہ چاک کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سخت ترین پابندیوںکے باوجود ایرانی معیشت مستحکم اور مضبوط ہے۔ آج ایران کی عمومی قومی پیداوار (GDP) کا حجم 500بلین ڈالر ہے۔ انقلاب سے قبل یہ حجم 95بلین ڈالر تھا۔ صحت عامہ کے شعبہ میں ایران نے نمایاں ترقی کی ہے 1979 میں (یعنی انقلاب سے قبل) پیدائش شرح اموات (IMR) ایک ہزار بچوں میں سے 111 تھی آج یہ شرح گر کرصرف 9رہ گئی ہے جو دنیا میں کم ترین شرح پیدائش و اموات (IMR) میں شامل ہے۔ مغربی ایشیا میں (IMR) کی شرح فی ہزار 30 ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 1979 میں ایک ہزار میں 174 تھی آج یہ شرح 35 رہ گئی ہے۔ انقلاب سے قبل (یعنی 1979 میں) ایک لاکھ میں سے 245 خواتین دوران زچگی شہید ہوجایا کرتی تھیں آج یہ شرح گر کر صرف 20 رہ گئی ہے۔
انقلاب سے قبل ایرانیوں کی اوسطاً عمر 56 سال تھی آج یہ بڑھ کر 73 ہوگئی ہے اس دوران ایرانی خواتین کی اوسطاً عمر 57 سال سے بڑھ کر 77 سال ہوگئی ہے۔ 1979 سے لیکر آج تک ایرانی ڈاکٹروں کی تعداد میں 700 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اسپتالوں کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ انقلاب سے قبل ایران میں صرف ملکی ضرورت کی 25فی صد ادویات تیار کی جاتی تھیں آج ایران ادویات کی فراہمی میں خود کفیل ہے 97فی صد استعمال کی جانے والی ادویات ایران میں بنائی جاتی ہیں۔ آج 65ملین ایرانیوں کو طبی کفالت (health insurance) میسر ہے۔
امریکی سامراج پابندیوں کے دوکلیدی اہداف ہیں۔ ایرانی سیاحت اور ایرانی توانائی (بالخصوص تیل) کی برآمدات۔ ان دونوں محاذوں پر ایران نے امریکی سامراج کو شکست فاش دی ہے۔ ایران بین الاقوامی سیاحت (tourism) کا دوسرا سب سے بڑا مرکز ہے اس کے باوجود ایرانی سیاحت شعبہ پر شرع مطہرہ کی عائد تمام پابندیاں نافذ ہیں۔ 2018 میں ایران میں 7.3ملین سیاح آئے جو 2017 کے مقابلہ میں تقریباً 45فی صد زیادہ تھے۔ پچھلے چند سال میں سیاحوں میں مستقل اضافہ ہورہا ہے اور توقع ہے کہ 2025 تک یہ تعداد سالانہ 25ملین تک بڑھ جائیگی۔ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران نے طویل المدت منصوبہ بندی کی ہے۔ ایران کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ عالمی تیل کی منڈی میں امریکی سامراج اور اس کی باجگزار حکومتیں قابض ہیں۔ یہ حکمت عملی دیرپا کامیابی کی ضامن
ہے اس کے ذریعہ ایرانی معیشت میں تیل پر انحصار کو بتدریج کم کرکے صنعتی تجارتی اور زرعی شعبہ پر زور دیا جارہا ہے۔ اس حکمت عملی کی کامیابی کا واضح ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ آج ایرانی برآمدی محصولات (export revenue) کا صرف 3فی صد حصہ تیل کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل یہ شرح اوسطاً95 فی صد ہوا کرتی تھی۔ ایرانی معیشت انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ انہوں نے تمام مشکلات اور پابندیوں کے باوجود دنیا کی فعال ترین آئی ٹی صنعت کار فرما کردی ہے اور اس آئی ٹی صنعت کو اتنا مستحکم کیا ہے کہ امریکا ہزار کوششوں کے باوجود ایران پر موثر cyber attack کرنے سے عاجز ہے۔ ایران معدنی وسائل سے مالامال ہے، تیل کے ذخائر سعودی عرب کے بعد دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں، ایران کی اسٹیل کی صنعت نے ہوشربا ترقی کی ہے اور آج ایران دنیا کا 12واں سب سے بڑا اسٹیل پیدا کرنے والا اور 8واں سب سے بڑا سیمنٹ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ پلاسٹک کی پیدوار کے لحاظ سے ایران دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اور Turquoise کی پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ دنیا میں صنعتی پتھر کی پیداوار میں ایران کا نمبر تیسرا اور لوہے کی پیدوار میں 8واں ہے۔ تانبے اور zinc کی پیداوار بھی بہت کثرت سے ہوتی ہے اور ان معدنیات کا استعمال قومی صنعتوں میں کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ ایران مشرق وسطیٰ کا سب سے تیزی ترقی کرنے والا صنعتی ملک ہے۔ صرف کاروں کی صنعت میں ایران میں 15,000 سے زائد فیکٹریاں کام کررہی ہیں 2018 میں گیارہ لاکھ سے زیادہ کاریں ایران میں بنائی گئیں اور 40 ممالک میں ایرانی automotive منصوعات فروخت کی گئیں۔ ایران بڑے پیمانے پر ادویات commercial drugs بھی برآمد کرتا ہے۔ زرعی شعبہ کی پیداوار میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے آج ایران دنیا کے سب سے بڑے اجناس (grain) پیداواری مراکز میں شامل ہے 195 ممالک میں اس کا نمبر 13واں ہے۔ 1979 سے آج تک ایران میں اجناس کی پیداوار میں 20گنا اضافہ ہوا ہے اور اب دنیا کے بہت بڑے گیہوں کی کاشت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ الحمدللہ ایران غذائی طور پر خود کفیل ہے اور پڑے پیمانے پر زرعی پیداوار برآمد کرتا ہے 2018-2019 میں ایرانی صنعتی اور معدنی شعبے کی پیداواری شرح 9.9 فی صد رہی۔ 2019-20 میں ایران میں صنعت کاری (investment) کی شرح نمو 20فی صد رہی۔
ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی سامراج کی پابندیاں اور Maximum pressure کی حکمت عملی کیوبا، ونیزویلا اور شمالی کوریا کی طرح ایران میں بھی ناکام ہورہی ہے۔ بلکہ کیوبا، ونیزویلا اور شمالی کوریا کے مقابلہ
میں ایرانی انقلابی حکمت عملی زیادہ کامیاب ہے اس کی دو وجوہات ہیں: سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ایرانی عوام مذہبی روحانیت اور جذباتیت سے سرشار ہیں، اشتراکیت سے نہیں۔ اشتراکیت ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے، اشتراکی مخلصین کا جذبہ محرکہ حسد ہے ان میں عبدیت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اشتراکی مخلصین دنیا میں جنت بنانے کی نامعقول جدوجہد میں مشغول ہیں۔ ان کا مایوس ہوجانا ممکن ہے کیونکہ جیسا کہ مشرقی یورپ، ویتنام اور کمبوڈیا کی مثالوں سے ثابت ہے (اور سب سے زیادہ چین کی مثال سے ثابت ہوتا ہے)۔ اشتراکی جذبہ حسد ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو لبرل جذبہ حرص سے شکست کھا جاتا ہے اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظام لبر ل اور قوم پرستانہ سرمایہ دارانہ عالمگیریت میں ضم ہوجاتاہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران میں جو معاشی ساختی تبدیلیاں لائی گئی ہیں وہ نہ کیوبا میں لائی گئی ہیں نہ ونیزویلا میں نہ جنوبی کوریا میں۔ چار دہائیوں کے مختصر عرصہ میں ایران ایک صنعتی معیشت بننے میں کامیاب ہوگیا ایک ایسی صنعتی اور خدمتی معیشت جو غذائی طور پر خود کفیل ہے اور جس کا معاشی نظام قومی رسد اور طلب کی کارفرمائی پر منحصر ہے اور بین الاقوامی تجارت یا سرمایہ کاری پر منحصر نہیں۔ یہ کارنامہ نہ کیوبا انجام دے سکا نہ شمالی کوریا۔ اسلامی علما کی دوراندیشی، بصیرت اور حوصلہ مندی نے سامراج کو پوری دنیا میں شکست فاش دینے کی حکمت عملی واضح کردی ہے۔