قوانین موجود ہیں، عمل کروائیں

399

اتوار کو پورے پاکستان میں انتہائی زور و شور کے ساتھ یوم خواتین منایا گیا ۔ یوں تو ہر برس 8 مارچ کو محنت کش خواتین کا دن منایا جاتا ہے مگر پاکستان میں اسے یوم خواتین کا نام دے دیا گیا ہے ، اس طرح سے محنت کش خواتین ، ان کے مسائل اور ان کے حقوق سب کہیں پردے کے پیچھے گم ہوگئے ہیں ۔ اس کے بجائے پیش منظر پر خواتین کی آزادی کے نام پر فحش پوسٹروں اور پلے کارڈوں نے ضرور جگہ لے لی ہے ۔خواتین کی آزادی کی علمبردار این جی اوز چاہتی کیا ہیں ، یہ بات وہ کہیں پر بھی صاف طور سے نہ تو کرپارہی ہیں اور نہ کرتی ہیں البتہ ان کے پروگراموں میں موجود پوسٹر اور بینر ضرور ان کے عزائم کو واضح کرتے ہیں ۔ جہاں تک پاکستان میں خواتین کے حقوق کی بات ہے تو کون سا حق ہے جو ان خواتین کو حاصل نہیں اوراس کے لیے قانون موجود نہیں ہے۔ اگر خواتین پر مظالم کی بات تو اس کے لیے ضرورت قوانین پر موثر عملدرآمد کی ہے۔ اگر ان کے ساتھ معاشرے میں کوئی جرم ہوتا ہے تو اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں اور عدالتیں بھی ۔ اگر ان مجرمین کو ان کے جرم کے مطابق سزا نہیں دی جاتی تو اس میں قصور سراسر پولیس اور عدالت کا ہے ۔ چونکہ مذکورہ این جی اوز کے پاس اس ضمن میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے ، اس لیے اس معاملے پر تو ان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے ۔خواتین کے حقوق کا نعرہ بلند کرنے والوں کو بے گناہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنا تو درکنار ، عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں پوسٹر بھی برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے اس پوسٹر کو بھی پھاڑ ڈالا اور اسے لانے والوں کو بھی مارچ سے باہر کردیا ۔ اب رہ جاتی ہے بات موزہ ڈھونڈنے اور کھانا گرم کرنے کی قبیل کے نعروں کی ، تو اس میںحق اور فرض کون سا ہے ۔ یہ تو کسی بھی مقام پر موجود دو افراد کے مابین انڈراسٹینڈنگ کی بات ہے ۔ جس طرح دو لوگ جب ساتھ سفر کررہے ہوں تو وہ ازخود آپس میں کام کی تقسیم کرلیتے ہیں ۔ اس سے آگے مزید بڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان این جی اوز کا اصل ہدف کیا ہے ۔ یہ ہدف ہے ملک میں غیر ازدواجی تعلقات کو قانونی اجازت دینے کا ۔ حالانکہ ان این جی اوز کو جن ممالک سے فنڈز ملتے ہیں ، ان ممالک میں بھی شادی شدہ افراد کو اپنے زوج کے علاوہ کسی اور سے تعلق اختیار کرنے کی قانونی اجازت نہیں ہے اور طلاق کے لیے سب سے موثر ثبوت شادی شدہ افراد کا اپنے زوج کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق رکھنا ہے ۔ تو پھر یہ این جی اوز پاکستان میں کیوں کر اس کو قانونی حیثیت دینے پر مصر ہیں ۔ حالیہ عورت مارچ میں بھی اور گزشتہ مارچ میں بھی بنیادی نعرہ والد کے اختیارات سے آزادی تھا ۔ یہ این جی اوز اور ان کی پروردہ خواتین کیا یہ چاہتی ہیں کہ جس باپ نے پہلے دن سے ان خواتین کو پالا پوسا، سینے سے لگا کر رکھا ، انہیں جوان ہوتے ہی ہوس کے پجاریوں کے سامنے ڈال دیں ۔ ایک طرف یہ اپنے شوہر کو اس کا اللہ کی طرف سے عطا کردہ حق دینے کو تیار نہیں ہیں تو دوسری جانب ہر ایرے غیرے کے ساتھ تعلق پر مصر ہیں ۔میرا جسم میری مرضی کا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے؟بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرم کو یہ این جی اوز سزائے موت دینے کے خلاف ہیں ۔ اسی طرح یہ این جی اوز نہ تو وراثت میں خواتین کے حق کی ادائیگی کی بات کرتی ہیں اور نہ ہی کام کی جگہ پر محنت کش خواتین کو ان کے حقوق کی ادائیگی کی ۔ ان کا پورا زور صرف اور صرف جنسی آزادی اور فحش حرکات کرنے کی پر ہے ۔ گزشتہ برسوں میں ہونے والے عورت مارچ کے پوسٹروں اور بینروں کو دیکھتے ہوئے اس امر کے اندیشے ظاہر کیے جارہے تھے کہ اس مرتبہ فحاشی نئی حدوں کو عبور کرے گی اور اتوار کو ہونے والے مارچ میں یہ سارے اندیشے پورے بھی ہوئے ۔ جس طرح سے مغرب میں می ٹو کی مہم چلائی گئی اور اس کے ذریعے مغربی معاشرے نے فحش کہانیوں کے چسکے لیے ، می ٹو کا یہ سلسلہ بھی عورت آزادی مارچ کے ذریعے پاکستان میں شروع کردیا گیا ۔ کوئی تو بتائے کہ اس میں عورت کی آزادی یا اس کے حقوق کی بات کہاں ہے ۔ یہ تو سراسر فحاشی پھیلانے کی آزادی کی بات ہے جس کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا ۔ اس کے جواب میں جماعت اسلامی پاکستان خواتین کے تحت پورے ملک میں یوم تکریم نسواں منایا گیا جس میں عورتوں کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ یوم تکریم نسواں کے تحت حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ہر ضلع میں خواتین یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے ، خواتین کو گھر بنانے اور بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں اور زینب الرٹ بل میں زیادتی کے مجرم کے لیے سزائے موت کو شامل کیا جائے مگر یہ مطالبے ان مٹھی بھر خواتین کے مطلب کے نہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی حکومت کو غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز کے غیر فطری مطالبے بوجوہ سمجھ میں آتے ہیں جبکہ ملک کی اکثریت کی بات وہ سمجھنے سے جان بوجھ کر گریزاں ہیں ۔ یہیں سے طبقاتی کشمکش شروع ہوتی ہے جو کسی بھی ملک کو تباہی کے گڑھے میں لے جاتی ہے ۔