نواز شریف کو لندن سے واپس بلانے کا ’’کٹا‘‘

337

جتنے منہ اتنی باتیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران حکومت کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے اس لیے اس نے میاں نواز شریف کو لندن سے واپس بلانے کا ’’کٹا‘‘ کھول دیا ہے تا کہ اسے پکڑنے میں خود بھی اچھل کود کرتی نظر آئے اور عوام میں یہ تاثر قائم ہو کہ حکومت بہت مصروف ہے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت میاں صاحب کو واپس لانے میں کامیاب رہی تو اس کی مصروفیت بہت بڑھ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ میاں صاحب کو جیل میں رکھا جائے گا جہاں ان کو دی گئی سہولتیں ایک بار پھر میڈیا میں موضوع بحث بنیں گی اور (ن) لیگ کے لیڈر ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں آواز اُٹھائیں گے کہ جیل میں ان کے قائد کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ وہ دل کے مریض ہیں، ان کے پلیٹ لٹس بھی نارمل نہیں ہیں جب کہ ان کے دماغ کی ایک شریان بھی بند ہے، لیکن ابھی تک ان کے کمرے میں ائرکنڈیشنز فراہم نہیں کیا گیا، حالاں کہ گرمی کا سیزن شروع ہوچکا ہے اور میاں صاحب اپنی کمزور صحت کے سبب ذرا سی گرمی برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ (ن) لیگ کے اس احتجاج پر اچھا خاصا مشاعرہ برپا ہوجائے گا اور فردوس عاشق اعوان صاحبہ اپنی تازہ غزلوں سے مشاعرہ لوٹ لیں گی۔ جیل میں میاں صاحب کے علاج معالجے کا معاملہ ایک بار پھر قوم کے اہم ترین مسئلے کی حیثیت سے سر اُٹھالے گا اور حکومت سمیت پوری قوم تشویش میں مبتلا ہوجائے گی۔ سرکاری خرچ پر مختلف امراض کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ یکے بعد دیگرے کئی میڈیکل بورڈز بیٹھیں گے اور میاں صاحب کا تفصیلی معائنہ کریں گے لیکن سر توڑ کوشش کے باوجود وہ میاں صاحب کی بیماری کا سِرا ڈھونڈنے میں ناکام رہیں گے اور بالآخر تمام میڈیکل بورڈز کی حتمی رپورٹ یہی ہوگی کہ میاں نواز شریف کا پاکستان میں علاج ممکن نہیں ہے۔ مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے انہیں فوری طور پر لندن بھیجا جائے۔ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ بھی اس رپورٹ پر مہر تصدیق ثبت کردیں گی۔ وزیراعظم عمران خان اس صورتِ حال پر مضطرب ہو کر شوکت خانم اسپتال سے اپنے دو معتمد ڈاکٹر میاں نواز شریف کے میڈیکل چیک اپ کے لیے جیل بھیجیں گے تا کہ وہ میاں صاحب کی بیماری کے بارے میں اصل حقیقت معلوم کرسکیں۔ یہ دونوں ڈاکٹر بھی واپس آکر خان صاحب کو یہی رپورٹ دیں گے کہ میاں صاحب کو کوئی پُراسرار اور پیچیدہ بیماری لاحق ہے جس کی تشخیص اور علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے، اس لیے میاں صاحب کو علاج کے لیے پھر لندن جانے کی اجازت دی جائے اور خان صاحب بوجھل دلی کے ساتھ اس رپورٹ کو منظور کرتے ہوئے میاں صاحب کو لندن واپسی کا پروانہ جاری کردیں گے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حکومت یہ ’’فکس میچ‘‘ کھیلنے پر آخر کیوں مُصر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کمر توڑ مہنگائی، کرپشن کی بڑھتی ہوئی شرح، بیروزگاری اور دیگر اَن دیکھے مسائل سے گھبرائی ہوئی ہے اگر حکومت میاں نواز شریف کو واپس لانے میں کامیاب رہتی ہے تو وہ ہمہ وقت ان کے ساتھ مصروف ہوجائے گی اور ملک کو درپیش سارے مسائل پس منظر میں چلے جائیں گے اور اسے سُکھ کا سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ چناں چہ حکومت نے برطانیہ کی سرکار کو باقاعدہ ایک خط لکھ بھیجا ہے جس میں اس سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو پاکستان واپس بھیج دے جو ایک سزا یافتہ مجرم ہیں اور انہیں بغرضِ علاج چند ہفتوں کے لیے لندن بھیجا گیا تھا لیکن لندن پہنچ کر انہوں نے نہ علاج کرایا نہ میڈیکل رپورٹس بھیجیں۔ اس طرح ان کی ضمانت ختم ہوگئی ہے اور انہیں پاکستان ڈی پورٹ کردیا جائے۔ اس خط کے ساتھ ساتھ حکومت نے عدالت سے بھی رجوع کرلیا ہے اور عدالت سے استدعا کی ہے کہ میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع نہ کی جائے۔ متاز ماہر قانون اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ حکومت کا برطانیہ سرکار کو لکھا گیا خط بے اثر رہے گا کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تحویل مجرمان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اور عمران حکومت پہلے ہی اس تجربے سے گزر رہی ہے۔ اس نے اسحاق ڈار کو واپس لانے کی کوششیں کیں، نہیں لاسکی۔ نواز شریف کے دونوں بیٹوں کو احتساب عدالت نے اشتہاری مجرم قرار دیا لیکن حکومت انہیں واپس لانے میں ناکام رہی۔ سب سے بڑھ کر ہزاروں افراد کا قاتل اور مسلمہ دہشت گرد الطاف حسین جسے پاکستان کی کوئی حکومت بھی لندن سے واپس نہ لاسکی۔ میاں نواز شریف کا کیس تو ان سب سے مختلف ہے وہ طبی بنیادوں پر عدالت کی اجازت سے لندن گئے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ابھی تک وہ نہ کسی اسپتال میں داخل ہوئے ہیں نہ باقاعدہ کوئی علاج شروع ہوسکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جب عدالت میں ضمانت کی منسوخی کی سرکاری درخواست زیر سماعت آئے تو میاں صاحب اسپتال میں داخل ہو کر اپنا علاج شروع کرواچکے ہوں اب کوئی بھی عدالت اتنی سنگدل نہیں ہوسکتی کہ میاں صاحب کو علاج چھوڑ کر پاکستان واپس آنے کا حکم دے دے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان خواہ کتنا ہی زور لگالیں وہ میاں صاحب کو واپس نہیں لاسکتے۔ وہ اپنی مرضی سے آئیں گے اور اُس وقت آئیں گے جب حالات ان کے حق میں سازگار ہوں گے۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں وہ چاہیں تو پاکستان واپس آکر حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دے سکتے ہیں لیکن وہ بھی اچھے وقت کے انتظار میں لندن میں جم کر بیٹھ گئے ہیں۔ سیاسی جوتشیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نواز شریف کے غم میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے، وہ اگر کچھ ڈیلیور نہ کرسکے تو شریفوں کو پھر چانس مل سکتا ہے اور وہ دھوم دھام سے واپس آسکتے ہیں۔