شاہد احمد دہلوی دلّی کی بپتا میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کو منہ پر گالیاں دینا، مارنا، ذلیل کرنا، پاکستان نہ جانے کے طعنے دینا، ڈرانا، دھمکانا اور ستانا شرنارتھیوں کا شیوہ تھا۔ خود مسلمانوں کی حمیت مرچکی تھی۔ گائے اور کمیلا خود مسلمانوں نے بند کردیا تھا۔ خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں کرنے لگ گئے تھے۔ پاکستان اور جناح کو برا کہتے سنتے تو خود بھی برائی کرنے لگتے۔ پہلے میاں بغیر سوچے سمجھے مار بیٹھتا تھا اور اب پٹنے پر بھی اس کا ہاتھ نہ اٹھتا تھا۔ ذلت کی ٹھوکریں نہ کھاتا تو اور کرتا بھی کیا۔ اس کی فریاد بے کار بلکہ فریاد کرے تو گناہ گار۔ حمایت کے بجائے عداوت مسلمانوں کا دستور ہوگیا۔ بھائی بھائی کا گلہ کٹوانے لگا۔ دلی کے مسلمان ہر حیثیت سے اپنی انتہائی پستی کو پہنچ چکے تھے اور اس پر بھی قانع ہوگئے تھے کیونکہ پاکستان آنے کا ان میں بوتا ہی نہیں تھا مجبوراً دلی ہی میں انہیں رہنا تھا۔۔۔ مسلمانوں سے بار بار مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی وفا داری کا ثبوت دیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے تو سوائے وفادار سرکار رہنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ان سے عملی ثبوت مانگا جاتا تھا‘‘۔
یہ شاہد احمد دہلوی مرحوم کی 1947کے مسلم کش فسادات کے پس منظر میں لکھی گئی تحریر سے اقتباس ہے۔ تب سے مسلمان ہندوستان سے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسباب بغاوت ہند سے مسلمانوں نے وضاحتیں دینے کا جو سفر شروع کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ 2020 میں جس دہلی سے آہ وبکا کی صدائیں دنیا نے سنی ہیں 1947 سے ہندوستان کی مسلم بستیوں کے ویرانوں سے نہ جانے کہاں کہاں سے ایسی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ 1947 کے فسادات میں کئی ہزار برباد خاندان دلی کی جامع مسجد میں پناہ کی خاطر اکٹھے ہوئے۔ دہلوی صاحب وہاں گاندھی کی آمد پر مسلمانوں کے جذبات کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مسلمان ان کے درشن کرنے اس قدر بے تاب ہو کر لپکے جیسے مہاتما نہیں آسمان سے پر ماتما اتر آیا ہو، مہاتما گاندھی زندہ باد کے نعروں سے مسجد گونج اٹھی۔ اللہ اللہ کیا وقت تھا گاندھی جی کو دیکھ کر لوگ خانہ خدا کو بھول گئے۔۔۔ وہ خاموش آیا اور تسلی کا کوئی لفظ کہے بغیر خاموش چلا گیا اور اگلے دن مسجد خالی کرنے کا سرکاری حکم نامہ آگیا‘‘۔ یہ گاندھی کا مسلمانوں سے اخلاص کا حال تھا۔ فسادات کے دوران بھی مہاتما جی مسلمانوں سے اپیل کرتے رہے ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ہتھیار مجھے دے جائیں‘‘۔ اس کی آہنسا صرف مسلمانوں کے لیے تھی۔ وہ دنیا کو یہ جتانا چاہتا تھا کہ سب فتنہ وفساد کی جڑ مسلمان ہیں۔
آزادی کے بعد ہندوستان کی انتظامیہ اور ہندو سیاست دان وہ مسلمانوں کے ہمدرد کے روپ میں ہوں یا دشمن کے، سب کا رویہ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کا حال بتدریج یہ ہو گیا ہے کہ وہ سر اٹھا کر چلنا بھول گئے ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان میں نوجوانوں کے ذہنوں میں مذہبی جنونی تصورات کا زہر بھرا جارہا ہے۔ انہیں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف لڑنے اور ان کا قتل عام کرنے کے لیے جنگی تربیت دی جارہی ہے۔ مسلح گروہ نہتے مسلمانوں کو ہراساں کررہے ہیں۔ تعلیمی اداروں، انتظامیہ، فوج، پولیس اور صحافت میں ہندو مذہبی جنونی راج کررہے ہیں۔ مسلمان بادشاہوں نے ہندئوں کے مندروں کو مسمار کروایا تھا اور ہندوئوں کوجبراً مسلمان بنایا تھا اس طرح کے الزامات ہندو جنونیوں کا معمول بن گئے ہیں۔ انتہا پسند تنظیمیں اور نریندر مودی جیسے لوگ ہندوئوں کو جو ملک کا بیاسی فی صد ہیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ماضی میں مسلمانوں نے ان کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر حکومت کھلم کھلا قاتلوں کی حمایت اور مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ حالیہ ہنگاموں میں دہلی میں سیکڑوں مسلمانوں کو شدید زدوکوب کرکے قتل کیا گیا، زندہ جلایا گیا، گھروں اور دکانوں کو لوٹا اور جلایا گیا۔ پولیس قتل عام کو نہ صرف خاموشی سے دیکھتی رہی بلکہ قاتلوں اور جنونیوں کی مدد کرتی رہی۔ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ مدا خلت نہیں کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اب ہندوستان کے مسلمان کیا کریں کہاں جائیں۔ صرف ہندوستان کے ہی نہیں پوری دنیا کے، کشمیر، فلسطین، شام، عراق، میانمر اور دیگر علاقوں کے مسلمان کہاں جائیں کیا کریں؟
آج مسلمانوںکے پاس ایٹم بم ہے، بہترین جنگی مشینری ہے، جذبہ جہاد سے لبریز افواج اور عوام ہیں لیکن وہ جنگ سے گریزاں ہیں۔ مظلومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں قتل کیا جارہا ہے، زخمی اور برباد کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں حکومت وحی کی بنیاد پر نہیں ہے۔ ہر ملک میں استعمار کے ایجنٹ برسر اقتدار ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی قاتل حکومتوں کو یقین دلا رکھا ہے کہ وہ اپنے زیر تسلط مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کریں مسلم ممالک کی افواج کو معمولی سی مداخلت بھی نہیں کرنی ہے۔ سات مہینے ہونے کو آرہے ہیں اہل کشمیر افواج پاکستان کی راہ تک رہے ہیں۔ ان کے گھر جیل بنادیے گئے ہیں۔ وہاں بدترین انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ شہریت کے قانون کے ذریعے مسلمانوں پر ضرب لگائی گئی۔ گجرات کے بعد دہلی میں مسلمانوں کے خلاف ظلم اور قتل عام کی تاریخ دہرائی گئی لیکن پڑوس میں مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین فوج کے پاکستانی حکمران خاموش بیٹھے ہیں۔ عمران خان اور جنرل باجوہ قرار دے چکے ہیں کہ جو اہل کشمیر کی مدد کے لیے آگے بڑھے گا وہ ان کا بدترین دشمن ہوگا۔ ان حکمرانوں نے اپنے قول اور فعل سے مودی کو ضمانت دے رکھی ہے کہ تم بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ جو چاہے سلوک کرو ہم تمہارا ہاتھ نہیں پکڑیں گے۔
پچھلے دنوں اسرائیل فلسطینیوں پر دن رات بمباری کرتا رہا۔ اہل فلسطین کے پڑوس ہی میں مصر، ترکی اور اردن کی افواج ہیں لیکن کسی بھی طرف سے اسرائیل کی سمت ایک گولی فائر نہیں کی گئی۔ یہودی قیادت کو بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان مسلم ممالک کی قیادتیں اپنی افواج کو متحرک نہیں کریں گی۔ 2017 میں جب ٹرمپ سعودی عرب گئے تھے اور مسلم ممالک کے سامنے فلسطین کے باب میں اپنا منصوبہ پیش کیا تھا تو کسی نے مخالفت نہیں کی تھی بلکہ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ یہ پہلا دور نہیں ہے جب مسلمان کمزور، پست اور تباہ حال ہیں۔ صلیبیوں نے نہ صرف بیت المقدس بلکہ پورے بلاد شام پر انتہائی خونریز حملے کیے تھے۔ 99برس عیسائی ان علاقوں پر قابض رہے۔ اس تمام عرصے میں خلافت کمزور تھی لیکن اس کے باوجود مسلمان جنگوں سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ صلیبیوں سے مسلسل لڑتے رہے۔
اس وقت جب خلافت عثمانیہ آخری سا نسیں لے رہی تھیں صہیونی تنظیم کے بانی تھیو ڈور ہرزل نے خلیفہ عبدالحمید ثانی کو 150ملین پائونڈ کے عوض فلسطین کی زمین فروخت کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تو سلطان نے کہا تھا ’’میں ہرزل کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آئندہ اس موضوع کے بارے میں نہ سوچے۔ فلسطین میری ملکیت نہیں ہے۔ اس لیے میں فلسطین کی زمین کا ایک بالشت بھی نہیں بیچ سکتا۔ فلسطین سارے مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ یہودیوں کو میری نصیحت ہے وہ اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں اگر خلافت کا شیرازہ بکھر گیا تو وہ فلسطین کو بغیر قیمت لے لیں گے۔ لیکن جب تک میں زندہ ہوں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ چھری کے ساتھ میرے بدن کو کاٹنا زیادہ آسان ہے اس بات سے کہ دیار اسلام سے فلسطین کو کاٹا جائے‘‘۔ 28رجب 1441 ہجری بمطابق 2020 خلافت کے خاتمے کو 99برس ہورہے ہیں۔ اس دوران بھارت کے مسلمان ہوں، فلسطین، شام، عراق، یمن، لیبیا یا دنیا کے دیگر علاقوں کے مسلمان انہیں بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے، ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے دربدری پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مسلمان بے بس ہیں بے کس ولاچار ہیں وہ کیا کریں کہاں جائیں۔ مسلم ممالک کی لیڈر شپ اور یہ نظام مسلمانوں کی بربادی کے باب میں مکمل طور پر ایکسپوز ہوچکے ہیں۔ ان کے مسائل کا حل ایک ہی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحی کے مطابق حکومت۔