چاچا بانا کی مسکراہٹ ختم ہوگئی

286

گزشتہ ہفتے وزارت اطلاعات کے ایک فرض شناس افسر حاجی احمد ملک کے انتقال کی ایک افسوس ناک خبر ملی، مرحوم کھلے ڈلے ماحول میں رہنے والے من موجی افسر تھے، جو ان کے دل کو بھا گیا، بس اسی کے ہو کر رہ گئے، اور جو دل کو نہ بھایا اس سے دور ہی رہے، صاف گو تھے اس لیے زیادہ لوگوں سے نبھا نہ سکے علامہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ تحریر فرماتے ہیں، بلا شک وریب چاندی اور تانبے کی طرح دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے اور اس کی صفائی اللہ کے ذکر سے مطمئن ہے، ذکر الہٰی دل کو (صیقل کرکے) چمکتے ہوئے آئینہ کی طرح کردیتا ہے اور جب ذکر کو ترک کردیا جاتا ہے تو دل پھر زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ جب کہ زنگ لگنے کے دوسبب ہیں: ۱:۔ غفلت، ۲:۔ گناہ اور زنگ آلود دل کی بھی صفائی کے بھی دوطریقے ہیں استغفار اور اللہ رب العزت کا ذکر، تلقین وہ یہی کرتے تھے۔
وزارت اطلاعات میں انہوں نے دبنگ وقت گزارا، مگر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی شہرمیانوالی چلے گئے، اور وہیں آسودہ خاک ہوئے، چاچا اسلم بانا ان کے مقربین میں شامل رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل وہ چاچا بانا کی صاحب زادی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے تھے تو ان کے دوستوں کی خوب محفل جمی تھی، حاجی احمد ملک کے انتقال کے بعد ان کے تمام دوست پریشان ہیں لیکن چاچا بانا تو اندر سے ٹوٹ چکے ہیں، مرحوم تو اب واپس نہیں آئیں گے، ان کی یادیں رہ گئی ہیں، انہیں اب یاد رکھنے کا ایک طریقہ ہے کہ ان کی خوبیاں بیان کی جائیںاور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی جائے۔ یہ دنیا بھی کتنی ظالم ہے، اس کا اندازہ کسی کو نہیں، جانے والے چلے جاتے ہیں، لیکن ظالم دنیا کو صرف لواحقین ہی بھگتتے ہیں، لاہور میں ایک بڑے فن کار امان اللہ خان کا انتقال ہوا تو قبر کے لیے جگہ ایک تنازع بن گیا، لواحقین کا ایک موقف ہے اور سوسائٹی کا موقف دوسرا ہے، ہمیں موقف سے کوئی سروکار نہیں، افسوس یہ ہے کہ قبر کے لیے جگہ متنازع بنا دی گئی، ہمارا دین کہتا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد تدفین اس کا حق ہے، مرنے والا کون تھا، کیسا تھا؟ یہ معاملہ وہ جانے اور اس کا اللہ، زعم پارسائی میں مبتلا معاشرے میں یہ واقعہ بہت افسوس ناک ہے حاجی احمد ملک بھی بہت ہی بلکہ انتہائی غریب گھرانے کے فرد تھے، اسلام آباد نے انہیں بہت رنگ لگا دیے تھے بڑے عہدے کے افسر تھے ان میں انکساری بھی تھی اور ہوشیاری بھی، وہ پریشان حال لوگوں کے نمائندہ تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد جب بھی اسلام آباد آتے وہ چاچا بانا کے ہاں ہی قیام کرتے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جب دوبارہ وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے نامزد ہوئیں تو انہوں نے حاجی صاحب سے درخواست کی وہ ان کے ساتھ اسلام آباد واپس آکر وزارت میں کام کریں لیکن حاجی صاحب نہیں مانے، وہ اپنے تجربے اور مشاہدے کی وجہ سے حقائق سے واقف تھے لہٰذا اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد وزارت کی جانب رخ نہیں کیا۔ شیخ احمد بن عجیبہ فرماتے ہیں، بندے کو مقام رضا تک اس وقت رسائی نصیب ہوتی ہے جب وہ تین مرحلوں سے گزرے۱:۔ اللہ کے ذکر میں مستغرق ہو، ۲:۔ اسے صالح اور ذاکر بندوں کی صحبت نصیب ہو، ۳:۔ وہ شریعت محمد پر سختی سے کاربندہو، ہماری دعا ہے کہ حاجی احمد ملک کے لواحقین، تمام دوست احباب ان کے لیے دعا کرتے رہیں اور خود بھی اپنے نفس کو مار کر اللہ کے صالح اور ذاکر بندوں میں شامل ہوجائیں، حاجی صاحب کے دوست چاچا بانا بھی بہت خوبیوں کے مالک ہیں، اللہ کے رجسٹر میں ان کی کوئی خوبی تھی تو انہیں اللہ نے اپنے گھر اور اپنے حبیب ؐ کے روضہ مبارک کی زیارت کے لیے بلایا تھا، مہمان نوازی میں وہ اپنے تمام دوستوں سے بہت آگے اور پیش پیش رہتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کوئی واقف کار، اسلام آباد آجائے تو انہیں اپنے گھر ضرور دعوت دیتے ہیں، دبئی پولیس کے کمیونیکیشن انجینئر محمد امین شاہد، ایک سماجی شخصیت ہیں، اسلام آباد آتے ہیں تو کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں قیام کرتے ہیں لیکن اس بار چاچا بانا انہیں مجبور کرکے اپنے گھر لے آئے، امین شاہد بھی ایک متحرک سماجی شخصیت ہیں، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق ہے اور نتائج کی پروا کیے بغیر ہمیشہ انتخابی میدان کے بھی کھلاڑی رہے ہیں ہماری دعا ہے کہ وہ تمام احباب جو اپنی نذر پوری کرچکے اور اللہ کے حضور پیش ہوگئے ہیں، اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے اور جو حیات ہیں، انہیں سلامت رکھے، چاچا بانا اور اس کے دوست سب داد کے مستحق ہیں کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے کام آتے ہیں کہ یہی اصل زندگی ہے۔