افغانستان کا امن ایک گورکھ دھندہ

318

افغانستان کا امن ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس کا حصول حد درجہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔ امن کی حقیقی منزل تک پہنچنے کے لیے جس تحمل، برداشت، تدبر، وسیع القلبی، بصیرت اور بصارت کی ضرورت ہے بہت سے فریق ابھی اس سے دور نظر آرہے ہیں۔ مستقل عدم تحفظ کے شکار ایک مضبوط طبقے کو غلامی اور اپنی بقا اور بچائو کے لیے کمزور سہاروں کی تلاش کی عادت سی ہو گئی ہے۔ برسوں سے جاری بدامنی اور خانہ جنگی میں اس طرح کے رویے پیدا ہونا فطری ہوتا ہے۔ یہ رویے حالات کا منطقی نتیجہ اور نفسیاتی عارضوں کی مانند ہوتے ہیں۔ افغانستان میں سوویت فوج کی آمد کے لیے جن رویوں نے حالات کو سازگار بنایا تھا وہ اب بھی اس معاشرے میں پوری طرح موجود ہیں۔ غیروں کے ساتھ مل بیٹھنا اور اپنوں سے پرے پرے کھسکنا افغان مسئلے کی پیدائش کی وجہ تھا اب اس مسئلے کے پائیدار حل میں یہ رکاوٹ ہے۔ افغان قیادت کے رویوں نے اس کے لیے ملکی حالات کو ایک گورکھ دھندہ بنا دیا ہے۔ ایک طرف دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ طالبان اور امریکا جو افغانستان کے عسکری منظر نامے کی دو بنیادی اور توانا حقیقتیں تھیں پہلے جنگ بندی اور بعدازاں فوجی انخلا کے معاہدے پر متفق ہوئیں۔ جس وقت دوحہ میں اس تاریخی معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے تو عین انہی لمحوں میں افغان صدر اشرف غنی کابل میں نمودار ہو کر اپنے وجود کا احساس دلا رہے تھے۔ ان وہ بوجھل دل کے ساتھ پاکستان کا شکریہ ادا کررہے تھے جو دوحہ مذاکرات اور معاہدے کا تیسرا اہم کردار تھا۔ اشرف غنی کی پریس کانفرنس اس منظر میں صرف ’’میں ہوں ناں‘‘ کا تاثر دلانے کے لیے توجہ دلائو نوٹس تھا۔ انہیں امریکا کا طالبان کے ساتھ اس انداز میں عہدوپیماں ہضم نہیں ہو رہا تھا اور دوسرے ہی دن اشرف غنی کھل کر سامنے آگئے۔ انہوں نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا اور ایسے کسی معاہدے کی پاسداری سے انکار کیا۔ طالبان اور امریکا کے درمیان امن کا مطلع صاف ہونے کے بعد اس بیان سے مستقبل کے امن منظر پر شکوک اور خدشات کے بادل دوبارہ منڈلانے لگے۔ طالبان نے اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے بغیر انٹرا افغان ڈائیلاگ میں شریک ہونے سے انکار کیا۔ جس سے حالات کی ایک سلجھتی ہوئی ڈرو میں پہلی اُلجھن دیکھی گئی۔ ایک دن کے وقفے کے بعد اشرف غنی کھل مزید کھل گئے اور انہوں نے کہا کہ جب تک طالبان خود کو پاکستان سے الگ نہیں کرتے ان سے بات چیت نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے طالبان قیادت سے یہ سوال پوچھا کہ وہ کب پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔ اشرف غنی کا یہ بیان اس بات کا غماض تھا کہ افغانستان کے منظر اور امن میں ’’کیدو‘‘ کا کردار ادا کرنے والے بھارت کو اپنا کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
افغانستان میں بدامنی کا افغانستان کے بعد کسی کو نقصان ہے تو وہ پاکستان ہے اور افغانستان میں بدامنی میں اگر کسی ملک کا فائدہ ہے تو وہ بھارت ہے کیونکہ جنگ وجدل کے ماحول میں اور ایک منظم حکومت اور نظام کی عدم موجودگی میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنا آسان ہوتا ہے۔ اشرف غنی کے بیان سے پیدا ہونے والی بدمزگی کے نتیجے میں طالبان نے افغان فورسز پر حملے کیے اور جواب میں امریکا نے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔ ایک طرف یہ فلم چل رہی تھی تو دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ طالبان راہنما ملا عبدالغنی برادر سے ٹیلی فون پر امن کے نئے عہد وپیماں کر رہے تھے۔ آدھ گھنٹہ ہونے والی اس گفتگو میں دونوں طرف سے افغانستان میں قیام امن پر بات کی گئی۔ ملا عبدالغنی برادر کی طرف سے ٹرمپ کو کہا گیا امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کی مخالفت کرنے والے اسے افغانستان میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے یقین دلایا کہ وہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے کہیں گے کہ افغان حکومت سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے بات کریں۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ جب امریکا کے صدر نے اپنی ہی فوج کے خلاف صف آرا ایک ملیشیا کے راہنما سے براہ راست بات چیت کی۔ اس سے امریکا کی افغانستان کے کانٹوں میں اُلجھا ہوا اپنا دامن چھڑانے کی خواہش کی تڑپتی مچلتی خواہش صاف نظر آرہی ہے اور امریکا اپنی اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں مزید رکاوٹیں برداشت کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار پر امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد خود میدان میں آگئے اور انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے قیدیوں کی رہائی کی شق شامل ہے۔ زلمے خلیل زاد جو خود بھی افغان نژاد امریکن ہیں نے ایک بیان میں نہایت دردمندانہ انداز میں کہا کہ افغان عوام اپنے ملک میں قیام امن کا تاریخی موقع ضائع نہ کریں۔ طالبان اور امریکا دونوں نے آزمائشی جنگ بندیوں کے ذریعے امن کے پھل کا جو ذائقہ چکھ لیا ہے اب ہر گزرتے دن کے ساتھ امن کے لیے ان دونوں کی اشتہا بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ امریکا کو اپنے انسانی اور معاشی وسائل کو نگل جانے والے بلیک ہول سے نجات مل رہی ہے اور طالبان کی آنکھوں کے آگے ایک بار پھر ’’امارت اسلامی‘‘ کی شبیہ گھوم گئی ہے۔ یہ دونوں کے لیے پرکشش احساس ہیں۔
زلمے خلیل زاد کی طرف سے طالبان امریکا معاہدے کی وضاحت اشرف غنی کی سرزنش کا انداز لیے ہوئے ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا کے اخبار نے یہ خبر دی تھی کہ اشرف غنی نے زلمے خلیل زاد سے ملاقات سے انکار کیا ہے۔ چند لاکھ ووٹ حاصل کرکے اپنی انتخابی فتح پر اترانے والے اشرف غنی امریکا کی واپسی اور طالبان سے معاہدے کو بے وفائی جان کر نڈھال ہیں اور شاید اس بے بسی میں وہ بھارت کو اپنی ڈھال اور چھتری کے طور پر نیا امریکا بنانا چاہتا ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ان کا جھگڑا طالبان سے بھی ہے جو پچاس فی صد سے زیادہ علاقے پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان کی کھٹ پھٹ اب امریکیوں سے چل پڑی ہے جو افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ان کی پاکستان سے بھی مخاصمت ہے جو افغانستان میں امن اور جنگ ہر کھیل کا اہم ترین بیرونی کھلاڑی ہے۔ اب ان کا جھگڑا اپنے ہی نظام کے طاقتور ستون چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی چل پڑا ہے جو اپنی ایک متوازی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ایک طرف کابل میں اشرف غنی صدر کے عہدے کا حلف رہے ہیں تو دوسری طرف مزار شریف میں عبداللہ عبدللہ اسی عہدے کا حلف لے رہے ہیں یہ تو ماضی کی کشمکش کی زیادہ خوفناک انداز میں واپسی ہی ہے۔ اشرف غنی کے اقتدار کو تسلیم نہ کرنے والوں میں ماضی کی سفاک گلم جم ملیشیا کے کمانڈر رشید دوستم نمایاں ہیں۔ اشرف غنی آخری چارہ ٔ کار کے طور پر بھارت کی چھتری تلے پناہ لیتے ہیں تو یہ واقعی اس تاریخی موقع کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا جس کی جانب زلمے خلیل زاد نے اشارہ کیا ہے۔ دماغ کو چکرا دینے والی اس صورت حال میں امن کو ترستے ایک عام افغان کی مثال ’’مجھے میرے دوستوں سے بچائو دشمنوں سے میں خود نمٹ لوں گا‘‘ جیسی ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس وقت ان کے لیڈر ہی اس طرح کے دوست کا کردار ادا کررہے ہیں۔