فیضِ عالم بابر
عورت خوشبو دار بیل ہے جس کی قربت مرد کو مسرور، شادماں اور تازہ دم رکھتی ہے۔ مرد وہ گھنا شجر ہے جس کے سائے تلے عورت کو سکھ، چین اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوجے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، دونوں ایک سکے کے دورخ ہیں اور وہ سکہ مذہب ہے، تہذیب ہے۔ مغربی معاشرہ مذہب سے دور ہوگیا اور تہذیب نے تو وہاں کبھی جنم ہی نہیں لیا سو اُس معاشرے میں سوائے چمک دمک کے باقی کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ بقول شکیب جلالی
ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
ان مردہ معاشروں کے مشینی رہنمائوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح مسلم ممالک کو بھی اپنے رنگ میں رنگ کر کھوکھلا بنادیں، خصوصاً جوہری پاکستان کو کہ یہ ملک ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ اپنے ناپاک عزائم میں ہمیشہ ناکام رہنے والے اپنی کامیابی کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہتے ہیں۔ یہ مشینی رہنما اس حقیقت سے واقف ہیں کہ۔۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔۔۔ سو یہ جنگ کی غلطی اول تو کرتے نہیں اور کرلیں تو ذلت ان کا مقدر ہوتی ہے جیسا حال ہی میں انیس سال کی متھا ماری کے بعد بالآخر خود کو سپر پاور سمجھنے والی مشین نے نہتے طالبان کے گھٹنوں میں سر دے دیا، پیسا پھینک تماشا دیکھ کا یہ کھیل پاکستان میں جاری ہے اور اس کھیل کے لیے ایلیٹ کلاس خواتین کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین عورت مارچ کے عنوان سے پاکستانی خواتین کے حقوق کی دعویدار ہیں۔ ان خواتین کو آئینہ دکھانے سے پہلے ان چند مغربی عورتوں کے اقوال پڑھ لیں جنہیں ایک یورپی ویب سائٹ نے عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے ذہین قرار دے کر ان کے قول نقل کیے ہیں۔
اخبار کی ہیڈ لائن اسٹوری بدلنے کے لیے مجھے صرف اپنا ہیئر اسٹائل بدلنا ہوگا (ہیلری کلنٹن)
ہم میں سے کچھ عورتیں وہ مرد بنتی جارہی ہیں جن سے ہم نے کبھی شادی کی آرزو کی تھی (امریکی صحافی گلوریا اسٹیم)
اگر عورت جاگ گئی اور اس نے اپنے بدن کو پسند کرنے کا فیصلہ کرلیا تو سوچیے کتنی صنعتیں تباہ ہوجائیں گی (پروفیسر گیل ڈائل)
وہ پیدائشی عورت نہیں تھی، اسے عورت بنادیا گیا (فرنچ رائٹر سیمن ڈی بیور)
ان بے تکے اقوال سے مغربی عورتوں کی اصلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی ذہین ہیں۔ بین السطور جو پیغام چھپا ہے وہ میں لکھ دیتا ہوں۔ پہلے قول میں یہ اقرار کیا جارہا ہے کہ میرا کوئی وجود نہیں میں استعمال کی چیز ہوں، ہیئر اسٹائل تبدیل کروں گی اور اخبار ایک نیا پروڈکٹ سمجھ کر مجھے ہیڈ لائن بنادے گا۔ دوسرے قول میں عورت اس مرد کی طرح بننا چاہ رہی ہے جو اسے چھوڑ کر جاچکا یعنی بے وفا اور خود غرض بننے کی بات، اسے آپ عورت کی محرومی بھی کہہ سکتے ہیں جو مرد کی قربت کو ترس رہی ہے۔ تیسرے قول میں یہ اقرار کیا جارہا ہے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بس نعرہ ہے، میرا جسم تو دوسروں کے لیے ہے۔ اور عورت تاحال سو رہی ہے کہ اپنے جسم کو اپنے لیے پسند نہیں کرتی۔ آخری قول عورت مارچ کی سرخیل ماروی سرمد پر صادق آتا ہے جن کی گزشتہ دنوں سرپھرے رائٹر خلیل الرحمن قمر سے ایک چینل پر تو تو میں میں ہوئی۔ خلیل الرحمن قمر نے ’سیر کو سوا سیر‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ایسی کلاس لی کہ مردوں کے مساوی حقوق کی شائق ماروی سرمد کو جیسے یاد آگیا کہ وہ عورت ہے اور چیخنی لگی کہ اس نے مجھے گالی دی، عورت کی تضحیک کی۔ اب کوئی سرپھرا شٹ اپ کال کے جواب میں اخلاق ِ حمیدہ کے پھول تو پیش کرنے سے رہا۔ سرپھرا جو ٹھیرا۔ ماروی سرمد کے اخلاق اور کردار پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ ٹوئٹر اور یوٹیوب پر ان کے ٹوئٹس اور ویڈیوز سے عیاں ہیں جن میں مردوں سے نفرت، اسلامی شعائر کا مذاق، حجاب کا مضحکہ ملکی آئین اور فوج پر تنقید کے سوا کچھ نہیں۔ خلیل الرحمن قمر کے حامیوں خصوصا خواتین نے سیدہ عائشہؓ، سیدہ فاطمہؓ کی مثالیں، قرآنی آیات، احادیث، مفکرین، مصنفین کے اقوال اور اشعار کی بھرمار کردی۔ ماروی سرمد کے حامیوں نے انفرادی سطح پر پیش آنے والے بچے، بچیوں سے زیادتی، عورتوں پر تشدد کے واقعات کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس جنگ سے ماروی سرمد سمیت عورت مارچ کی سرکردہ خواتین کی حقیقت سامنے آگئی اور خود خواتین نے ہی مختلف ویڈیوز اور پیغامات کے ذریعے یہ بتادیا کہ ان خواتین کو مغربی ممالک نے فنڈنگ کرکے معاشرے میں بگاڑ کے لیے میدان میں اتارا ہے، ان کا عورتوں کے حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ خواتین ہی کی بہت بڑی تعداد نے گزشتہ عورت مارچ میں زینت بننے والے اُن پنّوں کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا جن پر مخرب الاخلاق نعرے درج تھے۔ ایک ایک فحش نعرے کو لے کر جس طرح ماروی سرمد کو آئینہ دکھایا گیا اگر وہ دیکھ لیں تو شاید عورت بن جائیں۔ مگر بقول خلیل الرحمن قمر کے ہم ان تیس پینتس خواتین کو تو راہ راست پر نہیں لاسکتے کہ وہ تو اپنی نوکری چھوڑ نہیں سکتیں اگر چھوڑ دیں تو بے روزگار ہوجائیں گی البتہ ہم اپنی بچیوںکو ان کے ورغلانے سے بچائیں گے۔ ویسے تو عورت مارچ کے پسِ پردہ عوامل سامنے آچکے ہیں مگر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں
عورت مارچ میں شریک خواتین کے برانڈڈ لباس اور آرائش و زیبائش سے پتا چلتا ہے کہ یہ مالی طور پر خوشحال ہیں۔ یہ پیٹ بھری خواتین اگر واقعی خواتین کے حقوق کی علم بردار ہیں تو ملک بھر میں خصوصاً دیہاتوں میں بسنے والی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم خواتین کی داد رسی کے لیے عملی طور پر کیا کِیا؟ ان مارچ میں غریب خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر کیوں ہوتی ہے؟۔ گزشتہ مارچ میں چند شہروں میں مارچ میں شریک غریب گھرانوں کی خواتین شریک بھی ہوئیں تو ان بھولی بھالی خواتین نے خود ہی بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ انہیں پیسے ملے ہیں اور گاڑی میں خود لیکر آئے ہیں۔ ایک اور مزے کی بات کہ گزشتہ مارچ میں عورتوں سے مماثلت رکھنے والے خوبصورت خواجہ سرائوں کو بھی رقم دے کر شریک کیا گیا تھا۔ عورت بن کر شریک ہونے والے ان خواجہ سرائوں میں سے کچھ نے یہ بھانڈا خود پھوڑا تھا۔ ایک آدھ چینل پر خبریں چلیں اور اخبارات میں چھپی بھی تھیں مگر بیش تر چینلز نے ایسی خبریں دبالی تھیں۔
عورت مارچ کی سرخیلوں کو ان کے اپنے گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں، اور چھوٹی بچیاں کیوں نظر نہیںآتیں؟ کیا وہ عورتیں غریب ہیں اس لیے انہیں سامنے لانے میں انا پر ضرب لگتی ہے؟۔ کیا ان کی شرکت سے آپ اپنی توہین محسوس کرتی ہیں؟ کیا ان ماسیوں کو، بچیوں کو ان ایلیٹ کلاس خواتین نے اپنے برابر کے حقوق دیدیے ہیں؟ اگر کوئی ماسی یا برتن دھونے والی غریب بچی یہ کہہ دے کہ ’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘ تو اسے ماریں گی تو نہیں؟ دھکے دیکر گھر سے نکال تو نہیں دیں گی؟۔ ایلیٹ کلاس کی خواتین نے اپنے گھروں پر کام کرنے والی معصوم بچیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، انہیں جلایا گیا، حتیٰ کے قتل بھی ہوئیں جن کی خبریں تمام چینلوں سے نشر ہوئیں، اخبارات میں شائع ہوئیں۔ خواتین مارچ والیوں نے اپنی ہم پلہ ان خواتین کی کبھی مذمت تک کیوں نہیںکی؟۔ کیا تشددکا نشانہ بننے اور جلنے اور زندہ درگور ہونے والی یہ غریب بچیاں عورتوں کے زمرے میں نہیں آتیں؟۔ عورتوں کے حقوق کی دعویدار ان خواتین نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے مظالم اور اس کی رہائی پر کوئی بات کیوں نہیں کی؟ کیا عافیہ صدیقی اس قوم کی بیٹی نہیں؟ فوج کو تنقید کا نشانہ بنانے والی اور فوج کے حامیوں کو بوٹ پالش کے طعنے دینے والی ماروی سرمد نے عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنے والوں پر تنقید کیوں نہیں کی، کیا وہ خود بھی بوٹ پالشی ہے یا پھر اس بات کا ڈر ہے کہ آقائوں کے خلاف بات کرنے سے فنڈنگ بند ہوجائے گی اور مغرب بدر کرنے کا بھی خدشہ ہے؟۔ یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب خواتین کے حقوق کی ان نام نہاد دعویداروں کے پاس نہیں ہے۔ بے حیائی، فحاشی، خاندانی نظام میں دراڑیں ڈالنے اور مغربی ایجنڈے کے تحت معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کی اس ملک کو اس قوم کو چنداں ضرورت نہیں، اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جوبھی اس طرح کی ناپاک حرکتیں کرتا، کرتی ہے اُسے یہ پاک دھرتی چھوڑنی پڑجاتی ہے۔