رقم موجود نہیں تو تنخواہیں کیوں بڑھائیں؟

624

وزیراعظم عمران خان نیازی کو یہ مژدہ سنائے زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ملک پر سے مشکل وقت گزر گیا ہے اور اب بہتری کے دن آرہے ہیں کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کی خبر آگئی کہ حکومت کے پاس تو وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے رقم موجود نہیں ہے ، پورے ملک کے سرکاری ملازمین کی تو بات ہی دیگر ہے ۔ عمران خان نیازی کے بھی عجیب و غریب معاملات ہیں جو بلا سوچے سمجھے فیصلے کرتے ہیں ۔ انہوں نے پہلے صرف نیب کے ملازمین کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو تا دو سو فیصد اضافہ کردیا ۔ اس اضافے کے بارے میں یہ سمجھا گیا کہ یہ نیب ملازمین کو مخالفین کے خلاف من پسند کارروائی کے لیے بونس دیا گیا ہے ۔ جب نیب ہی جیسے دوسرے ادارے ایف آئی اے نے اعتراض کیا کہ جو کام نیب کا عملہ کرتا ہے ، وہی کام ہم بھی کرتے ہیں تو ہماری تنخواہ اور مراعات کو بھی نیب کے برابر کیا جائے بصورت دیگر ایف آئی اے کا عملہ کام نہیں کرے گا اس کا اعلان تو نہیں کیا گیا تاہم پیغام پہنچا دیا گیا چنانچہ ان کی تنخواہ اور مراعات میں بھی ڈیڑھ سو تا دو سو فیصد اضافہ کردیا گیا ۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ کے ملازمین کو بھی نواز دیا گیا ۔ تنخواہوں کے یکساں اسکیل کی اسکیم کی خرابی کے ساتھ اس طرح کے امتیازی اضافے کی وجہ سے سرکاری ملازمین میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد دیگر وفاقی محکموں کے ملازمین کا اعتراض اور احتجاج منطقی ہے ۔وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین گزشتہ ہفتے سے ہڑتال پر ہیں کہ ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا جائے ۔ یوں تو یہ ہڑتال گریڈ ایک تا 16 کے ملازمین کررہے ہیں مگر انہیں گریڈ 17 تا 22 کے ملازمین کی پشت پناہی بھی حاصل ہے ۔ حکومت کو ایک اور بھی مشکل کا سامنا ہے کہ صوبوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور پنجاب نے منتخب گروپس کو تنخواہوں میں غیر معمولی اضافے دیے ہیں جس کے باعث ان صوبوں میں صوبائی سیکریٹری کی تنخواہ وفاقی سیکریٹری کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے وفاق میں کوئی سیکریٹری کام کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ کابینہ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر وقتاً فوقتاً سرکاری ملازمین کے مخصوص گروپس کو تنخواہوں میں خصوصی اضافے دینے کی وجہ سے تنخواہوں کا ڈھانچہ بری طرح بگڑ چکا ہے ۔ وفاقی کابینہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت نے صرف وفاقی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کا فیصلہ بھی کیا تو اس سے قومی خزانے پر 150 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ ان میں مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والے بھی شامل ہیں ، جن کے لیے بھی وفاقی حکومت کو مزید قرض لینا پڑے گا ۔ تنخواہوں میں اضافے کے معاملے پر حکومت پہلے ہی سخت صورتحال کا اس لیے سامنا کر رہی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ماہ وزارتوں اور ڈویژنوں کے ملازمین کو تنخواہوں میں دیے جانے والے 20 فیصد سیکریٹریٹ الائونس کو امتیازی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ منسلک محکموں کے ملازمین کو بھی یہی اضافہ دیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کے نتیجے میں اضافی ڈیڑھ سو ارب روپے درکار ہوں گے کیونکہ یہ اضافہ 2013سے دیا جانا ہے۔سیکریٹریز کمیٹی نے حال ہی میں تمام ملازمین کیلئے سو فیصد اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ کمیٹی کی سفارشات پر، جن پر ہڑتال پر موجود سیکریٹریٹ کے ملازمین عمل کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر کسی بھی سطح تک عمل ہو بھی گیا تو یہ بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں امتیازی اضافہ ہی ہوگا۔جب سے عمران خان نیازی نے حکومت سنبھالی ہے مہنگائی کو پر لگ گئے ہیں ۔ سرکاری ملازمین سو فیصد اضافہ مانگ رہے ہیں ، اگر قوت خرید میں کمی کو دیکھا جائے تو یہ سو فیصد اضافہ بھی کم ہے ۔ حکومت کے پاس اگر فنڈز موجود نہیں ہیں تو اس میں عوام کا تو کوئی قصور نہیں ہے ۔ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی بے قدری ، اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں زبردست اضافہ ، ایف بی آر کی ریونیو جمع کرنے کے نام پر دہشت گردی، بجلی و گیس کے نرخوںمیں زبردست اضافہ ، پٹرول کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ وغیرہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہر شے کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور یوں مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ۔ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے صنعتی یونٹ ایک ایک کرکے بند ہونا شروع ہوگئے اور یوں بیروزگاری نے ہر سو ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔یہ سب کچھ عمران خان نیازی اور ان کی ٹیم کا کیا دھرا ہے ، اس میں عوام کا کیا قصور ہے ۔ عمران خان نیازی اپنی ناکامیوں کا ملبہ عوام پر ڈالنے کے بجائے ، عوام کو ریلیف دینے کی بات کریں ۔اس سوال کا جواب تو ان پر قرض ہے کہ انہوں نے کیوں ایک محکمے کے ملازمین کی مراعات میں اضافہ کیا۔ اس امتیازی سلوک کے نتائج و عواقب کے بارے میں انہوں نے کیوں نہیں سوچا اور سمجھا ۔ یہ بلاسوچی اور سمجھی پالیسیاں ہی ہیں ، جنہوں نے ملک کو ایک ایسی دلدل میں پھنسادیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آرہی ۔ عمران خان نیازی کو جتنے بھی ووٹ ملے ، وہ اس لیے ملے کہ عوام زرداری اور نواز شریف کے چکر سے باہر نکلنا چاہتے تھے ۔ عمران خان نیازی نے یقین دلایا تھا کہ وہ کرپشن کو ہر سطح پر ختم کردیں گے مگر ان کے یہ سارے دعوے تو اسی دن بھاپ بن کر اڑ گئے تھے جس دن انہوں نے پرویز مشرف کے کرپٹ ساتھیوں کو اپنی کابینہ میں جگہ دی تھی اور معاون خصوصی اور مشیروں کے درجے پر فائز کیا تھا۔ وزیرا عظم عمران خان نیازی معاملات کو سمجھیں کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے خوشحال لوگ بھی اب غربت کی سطح پر آگئے ہیں اور روز لاکھوں لوگ غربت کی لکیر عبور کرجاتے ہیں ۔ جب حکومت ان کے بس کی چیز نہیں ہے تو وہ کیوں اس سے چمٹے ہوئے ہیں ۔