پاکستان جاگیرداری نظام کے چنگل میں

869

بہت کم لوگ اس بات پر یقین کریں گے کہ جاگیر دارانہ نظام کی تاریخ 5ہزار سال پرانی ہے۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس استیصالی نظام کا آغاز اولین انسانی تہذیب کے مرکز، جنوبی عراق میں 2750 سال قبل مسیح ہوا تھا۔ جنوبی عراق اس زمانے میں URUK کہلاتا تھا۔ فرات اور دجلہ کے درمیانی علاقے میں سمیری بادشاہوں کی حکمرانی تھی جنہوں نے اس علاقے میں بارہ شہر بسائے تھے۔ اس علاقے کا دیو قامت بے حد طاقت ور بادشاہ گلگ میش تھا جس نے اپنے شہر کے اردگرد چھ میل لمبی دیوار تعمیر کی تھی۔ عوام کے دفاع اور تحفظ کے اس اقدام کے عوض گلگ میش نے فرات اور دجلہ کے درمیان علاقے میں سیلاب کی روک تھام اور زراعت کے لیے آب پاشی کی نہریں کھدائی تھیں جس کے لیے گلگ میش نے غریب عوام سے جبری بیگار لیا تھا۔ یہ تھا آغاز انسانی تہذیب میں استیصال اور طبقاتی کشمکش اور ظلم و ستم کا۔ عوام کی اکثریت کھیتی باڑی میں جتی رہتی تھی اور گلگ میش اور گنی چنی اشرافیہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتی تھی، اس زمانے میں چونکہ معاشرے کا سارا دارومدار زراعت پر تھا اور ابھی صنعت و کاروبار کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اس لیے کسانوں کا حال غلاموں سے بھی بد تر تھا۔ پھر بادشاہوں نے ملک گیری کی ہوس اور اقتدار کی چاہت کی خاطر فوج کے سپہ سالاروں اور امراء کی وفا داری کے حصول کی خاطر ان میں خلعتوں کی طرح جاگیریں تقسیم کرنا شروع کردیں۔
ایک ہزار نو سو سال قبل مسیح میں جب آریہ برصغیر میں آئے تو انہوں نے یہاں جب سلطنتیں قائم کیں تو اپنے اقتدار کی خاطر جاگیرداری نظام کا سہارا لیا۔ آریہ سب سے پہلے پنجاب میں آئے۔ اس زمانے میں زراعت اپنے ابتدائی دور میں تھی لہٰذا آریہ چرواہوں کی زندگی گزارتے تھے اور ان کا پیشہ اپنے حریف آریہ قبائل کے مویشیوں کی چوری اور انہیں بھگا لے جانے کا تھا۔ مویشی چرانے کے لیے ان کی اپنی کوئی زمین اور چراگاہ نہیں تھی لہٰذا یہ گنگا جمنا کی زرخیز وادی کی سمت منتقل ہوگئے۔ جہاںانہوں نے چرواہوں کی زندگی ترک کر کے زراعت کا سلسلہ شروع کیا۔ دسویں صدی قبل مسیح میں انہوں نے دو آب کے اس علاقہ میں دو سلطنتیں قائم کیں جہاں معاشرہ تقسیم کار اور دھرم کی بنیا د پر طبقات میں بٹتا گیا اور نچلا طبقہ ویشیا کھیتی باڑی اور اناج کی پیداوار کے لیے مخصوص طور مامور کردیا گیا۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں جاگیرداری نظام انگریزوں کے دور میں شروع ہوا۔ لیکن تاریخ کا فیصلہ مختلف ہے۔ برصغیر میں جاگیرداری نظام دراصل مغلوں کے دور کی دین ہے۔ اکبر اعظم نے ملک بھر میں زرعی آمدنی کی وصولی کے لیے منصب داری نظام رائج کیا تھا جو مغل دور کے خاتمے تک برقرار تھا۔ انگریز راج نے مغلوںکے منصب داری نظام ہی کی بنیاد پر جاگیرداری نظام کو فروغ دیا۔ لیکن مغلوں کے منصب داری نظام اور انگریزوں کے جاگیرداری نظام میں بہت فرق تھا۔ مغلوں کا منصب داری نظام موروثی نہیں تھا۔ منصب داروں کو زرعی آمدنی کی وصولی کے عوض اس آمدنی میں سے کچھ حصہ ادا کیا جاتا تھا۔ انہیں اراضی ملکیت میں نہیں دی جاتی تھی اور چونکہ انہیں اراضی کی ملکیت نہیں دی جاتی تھی اس لیے انہیں اراضی اپنے وارثوں میں تقسیم کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ انگریزی راج نے ان منصب داروں کو اپنی حکمرانی کا اہم ستون قرار دیا اور ان میں موروثی بنیادوں پر اراضی تقسیم کی اور
بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا۔ یوں برصغیر میں موجودہ جاگیرداری نظام کی بنیاد پڑی۔ انگریزوں نے اسی بنیاد پر ہندوستان میں حکمرانی کی ان کا ایک اہم ستوں ریاستیں اور رجواڑے تھے جن کے ذریعہ انہوں نے اپنا تسلط برقرار رکھا تھا۔ آزادی کے وقت ان ریاستوں اور رجواڑوں کی تعداد 565تھی اور کئی ہزار جاگیریں اور زمینداریاں تھیں۔ آزادی کے فوراً بعد ہندوستان میں حکمران کانگریس نے انقلابیا قدام اٹھایا اور پورے ملک میں زمینداریاں منسوخ کر دیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں جاگیردار اتنے طاقت ور تھے اور چونکہ پاکستان کی تحریک میں مدد گار تھے اس لیے قیام پاکستان کے بعد کسی حکومت کی جاگیرداریاں ختم کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد جاگیرداروں کے فوج اور بیوروکریسی سے ازدواجی رشتوں اور باہمی مفادات کی بنیاد پر اتنے قریبی تعلقات استوار ہو گئے کہ کوئی حکومت جاگیرداروں کے اثر و نفوذ کو چیلنج نہیں کر سکی۔ پاکستان میں پہلی بار زرعی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے دوران ایوب خان کے دور میں کی گئی۔ مارشل لا کے حکم نامہ کے تحت کسی ایک شخص کے لیے آب پاشی والی پانچ سو ایکڑ سے زیادہ اراضی کی ملکیت ممنوع قرار دی گئی اور آب پاشی سے محروم ایک ہزار ایکڑ اراضی کی ملکیت کی اجازت دی گئی۔ لیکن جاگیر داروں نے اپنی بڑی بڑی زمینیں اپنے رشتہ داروں اور ملازمین کے نام کر کے اپنے نام صرف پانچ سو ایکڑ زمین دکھا کر اراضی کی ضبطی سے بچنے کی راہ اختیار کی اور یوں زرعی اصلاحات ناکام ہو گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی زرعی اصلاحات کی کوشش کی گئی اور زیادہ سے زیادہ اراضی کی ملکیت ایک سو ایکڑ مقرر کی گئی لیکن اُس زمانے میں بہت کم اراضی زمینداروں سے ضبط کر کے بے زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی اور جب بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیا برسر اقتدار آئے تو بڑے بڑے جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات کے خلاف وفاقی شریعت عدالت سے رجوع کیا جس نے زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دیا اور ایوب خان اور بھٹو کے ادوار کی زرعی اصلاحات کو کالعدم قرار دے دیا اور جاگیرداری نظام بھرپور طریقے سے پاکستان کی معیشت اور سیاست پر مسلط ہوگیا۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت پانچ فی صد جاگیردار خاندان پاکستان کی دو تہائی زرعی زمین پر قابض ہیں۔ جہاں تک سیاسی تسلط کا تعلق ہے تو عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی دوتہائی سے زیادہ تعداد زمیندار اور جاگیر دار خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں 75فی صد سے زیادہ اراکین زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سند ھ میں نوے فی صد اراکین زمیندار اور وڈیرے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا شور مچایا جاتا ہے لیکن ملک کی سیاست پر جاگیرداراور موروثی سیاسی جماعتیں چھائی ہوئی ہیں۔ اس صورت حال میں جمہوریت کا دعویٰ کیوں کر کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کا راج ہے اور انتخابات میں ان ہی کی مرضی کے مطابق ووٹ پڑتے ہیں۔ ہاری اور غریب سوچ بھی نہیں سکتے علاقہ کے جاگیر دار کے خلاف ووٹ ڈالیں۔ جمہوریت پاکستان میں محض ایک کھوکھلا نعرہ اور سراب بن کر رہ گئی ہے۔ فوج میں بھی زمیندار طبقہ تیزی سے سرایت کرتا جا رہا ہے کیونکہ فوج کے اعلی افسر ریٹائرڈ ہونے کے بعد بڑی بڑی زرعی اراضی کے تحائف کی بدولت بڑے بڑے زمینداروں کی صف میں شامل ہو رہے ہیں، نتیجہ یہ کہ ملک کے جاگیردار فوج کے اس رشتہ سے اور زیادہ طاقت ور ہوتے جارہے ہیں اور ملک مکمل طور پر جاگیر دارانہ نظام کے عذاب کے چنگل میں جکڑتا جا رہا ہے جس سے نجات فی الحال ممکن نظر نہیں آتی۔