راشد منان
عورت مارچ گزشتہ کئی دنوں سے اس کے حامی اور ناقدین کے درمیان ایک زبردست بحث جاری ہے یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہر دو طرف عورت مارچ کی حمایت میں کچھ مرد حضرات جبکہ اس کی مخالفت میں مردوں کے ساتھ ساتھ خود صنف نازک کی ایک بڑی تعداد شامل ہے یعنی حقوق کی دعویدار عورتوں کے مطالبات یا ان کے بیہودہ نعروں کو ان کی اپنی صنف بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ظاہر بات ہے کہ صنف نازک کی خود اپنی برادری کے اس بیہودہ مارچ کی مخالفت کے پیچھے ان کی اسلامی تعلیمات، ان کا معاشرہ اور ان کے اسلاف کی تربیت اصل وجہ ہے اس بحث نے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر اس وقت زور پکڑا جب ماہ مارچ کی تین تاریخ کو ایک نجی چینل پر میرا جسم میری مرضی کے درآمدہ نعرہ کی روح رواں خاتون ماروی سرمد کو خود آج کے آزاد معاشرے کے ایک فرد خلیل الرحمن قمر نے جن کا اپنا تعلق بھی خود اسی بے لگام مادر پدر آزاد کھیل تماشوں کی دنیا سے ہے اور جو آج کی جدید اور طلسماتی تہذیب کے پرچارک اور لکھاری ہیں جن کے لکھے کردار معاشرے کی متضاد عکاسی لیے کسی نہ کسی چینل پر چوبیس گھنٹے متحرک رہتے ہیں نے بے نقاب کیا اور اپنے شدید جذبات کے اظہار میں انہوں نے ان خاتون کے خلاف نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے جو قابل مذمت ہیں تاہم قانون قدرت کے مطابق بعض شرسے بسا اوقات خیر کا پہلو نکل آتا ہے پھر ہوا بھی یہی کہ عورت مارچ کی حمایتی خواتین سے کہیں زیادہ آج کے خود ساختہ روشن خیال مرد ان خواتین کے حق میں جبکہ دوسری طرف مردوں سے کہیں زیادہ اس مارچ اور ان بیہودہ نعروں کے خلاف تہذیب یافتہ خواتین خود اس کی مخالفت میں صف بستہ ہو گئیں۔
سیاست میں’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کے بعد یہ دوسرا عجیب و غریب نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا ہے پہلا نعرہ بلند کرنے والے آج اپنے عمل پر خود ہی شرمندہ ہیں نہ منزل ملی اور نہ ہی رہنما رہا جبکہ دوسرا نعرہ بلند کرنے والوں کو بہت زیادہ پزیرائی اس لیے بھی نہیں ملی کہ اول تو یہ نعرہ ہی عجیب ہے۔ دوم یہ کہ جس تہذیب اور جس معاشرے سے یہ نعرہ اخذ کیا گیا وہاں کی خواتین آج مردوں کی برابری میں آنے کے بھیانک نتائج کو بری طرح بھگت رہی ہیں اور اب سکون کی تلاش میں اس معاشرے اور مذہب کی متلاشی ہیں جو صحیح معنوں میں ان کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے جس میں ایک عورت کی حفاظت کے لیے قدرت کی طرف سے چار مضبوط سہارے باپ، بھائی، خاوند اور بیٹے کے روپ میں موجود ہیں ایک کی وہ عزت دوسرے کی وہ غیرت جبکہ تیسرا اس کی عصمت کا محافظ ٹھیرایا گیا ہے اور یہی نہیں خود عورت کے روپ میں اسے ماں کی ٹھنڈی آغوش اور بہن کی محبت عطا ہوئی ہے کوئی بھی مرد عورت کے حقوق کے خلاف اس لیے نہیں کہ اسلامی نظام میں عورتوں کے تمام حقوق ماں، بہن، بیٹی اور بیوی طے شدہ ہیں ناقدین کی مخالفت کی واحد وجہ خود عورت کی عزت و عصمت ہے وہ ان کی مادر پدر آزادی کے مطالبے کے خلاف اس لیے ہیں کہ وہ انہیں عزت کے مقام سے نیچے نہیں دیکھناچاہتے جب ہی تو آج کے اس بے راہ رو معاشرے میں خواتین کی اکا دکا ہراسگی کے واقعات کے برعکس ان کی عزت وعصمت کے محافظوں کی شرح فی صد کہیں زیادہ ہے آزمائش شرط ہے کسی بھی نجی محفل، شاپنگ مال اور تفریحی مقام پر کسی مرد کی نہیں بلکہ کسی خاتون ہی کو یہ ذمے داری دیں کہ وہ کسی طرف بھی اپنے ایک اشارے سے کسی شریف مرد کے بارے میں ہراسگی کا نوحہ کہہ دے نتیجہ آپ آجائے گا۔
معلوم ہوا کہ خواتین کی عزت و عصمت کے محافظوں کی تعداد ان کے حقوق پامال کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے جس کی گواہی طالبان کی قید میں بند مغربی خاتون صحافی بھی دے چکی ہیں اور دنیا بھر میں موٹرسائیکل کا سفر کرنے والی خاتون اس معاشرے اور مذہب کا حصہ بن کر دے رہی ہیں۔ لہٰذا حقوق نسواں کی دعویدار خواتین جن کا شرح فی صد اعشاریہ میں بھی کئی صفروں کے بعد آتا ہے ان کا نعرہ میرا جسم میری مرضی ان کے حقوق کی آواز ہرگز بھی نہیں کیونکہ ان کے کسی مظاہرے اور فورم میں عزت مآب گھرانوں کی مائیں بہنیں بہو اور بیٹیاں شامل نہیں اور نہ ہی گائوں دیہات اور مضافاتی بستیوں کی رہائشی محنت کش خواتین اس مارچ کا حصہ ہیں اور وہ اس لیے بھی ان کے ساتھ نہیں کے پوش علاقوں اور امراء کے طبقے سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین ان کے حقوق کی علم بردار اس لیے بھی نہیں ہوسکتیں کے ان کے محنت کرنے والے کھردرے ہاتھ اور ان کی محنت کے نتیجے میں ان کے جسم اور لباس سے اٹھتے پسینے کی بھبکیاں انہیں پسند نہیں وہ چند گھنٹے تو کیا چند لمحے بھی ان کے ساتھ گزار نہیں سکتیں ان کی غرض اپنے جسم کو خود اپنی مرضی کے تابع رکھ کر مغربی دنیا اور ان کی کفالت کرنے والے ادارے اور انجمنوں کو خوش کرنا ہے سگریٹ سے لیکر شیونگ بلیڈ حتیٰ کہ تعمیرات کے شعبے سے وابستہ سیمنٹ اور سریے کے اشتہارات تک میں بھی ان کی مرضی کا جسم بے انتہا نمایاں رہتا ہے۔ جسے اللہ کے نیک بندے اور بندیاں ناپسند کرتے ہیں لہٰذا ضروری امر یہ ہے کہ اس مارچ اور اس کے پیچھے چھپے عزائم کے خلاف صرف نجی سطح پر نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی کچھ عملی اقدامات کیے جائیں اور ویلن ٹائن ڈے کی طرح اس مارچ کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کی جائے۔ کافی حدتک یہ بات بھی درست ہے کہ آزادی کا جواز ڈھونڈ کر اگر مرد بے لباس گھومنا شروع ہو جائیں تو خود ان ترقی یافتہ خواتین کا رد عمل کیا ہوگا۔ خلیل الرحمن کے خیالات مرد ہونے کے ناتے اگر آپ کو برے لگتے ہیں تو پھر ان لاتعداد عزت مآب خواتین کی لعن طعن ہی کو سن لیا جائے جو کسی صورت آزادی اور حقوق کے مطالبے کی آڑ میں اپنی عزت و عصمت کا سودا نہیں کرنا چاہتیں بہر حال انہیں باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر کے روپ میں ایک طاقتور سہارے کی ضرورت ہے نہ کہ حرص و ہوس کے پجاریوں کے ناپاک ہاتھ اور ان کی غلیظ سوچ کی جس کی وکالت سستی شہرت کی غرض سے یہ فیشن زدہ خواتین کر رہی ہیں۔