سات ماہ کی بندش: کشمیر کی معیشت روبہ زوال

660

غازی سہیل خان
4 مارچ کو جموں کشمیرکی انتظامیہ نے انٹرنیٹ بندشوں سے سات ماہ کے بعد پابندی ہٹا دی لیکن اس سے پہلے بھارتی عدالت عظمیٰ کے ایک حکم نامے کے بعد (جو پانچ مہینے کے بعد سُنوایا گیا) جموں کشمیر کی انتظامیہ نے 24جنوری کو ٹھیک 174دنوں بعد مشروط بنیادوں پر انٹرنٹ بندشوں میں نرمی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے جہاں سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر پابندی عائد کر کے رکھی ہے وہیں چند محدود ویب گاہوں پر صارفین کی رسائی ممکن بنانے کے لیے مواصلاتی کمپنیوں کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں تاکہ کوئی کشمیری اس بُنیادی حق کو حاصل کر کے دُنیا تک ان پر ہو رہے ظلم و استبداد کی کہانی نہ سُنا سکیں۔ تاہم انٹرنٹ بندشوں میں نرمی اس وقت انتظامیہ کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی جب لوگوں نے وی، پی، این (VPN) ایپلی کیشنز کی مدد سے تمام سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر رسائی حاصل کر لی۔ اس ساری صورتحال کے بیچ انتظامیہ نے ملک کی دیگر ریاستوں سے ماہرین کی ٹیمیں بھی کشمیر لانا شروع کر دی تا کہ کشمیریوں کی رسائی سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر روک دی جائے۔ تاہم وہ کشمیر یوں کی سماجی ویب گاہوں تک رسائی روکنے میں ناکام ہو گئے ہیں، بھارت کی مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ بی ایس این ایل (BSNL) نے سوشل سائٹس کو بند رکھنے کے لیے شدید مالی بحران کے باوجود سماجی رابطہ کی ویب گاہوں تک رسائی روکنے کے لیے کروڑوں روپے مالیت کا سافٹ ویئر ’’فائر وال‘‘ بھی خریدا تھا۔ محکمہ داخلہ کی طرف سے 31 جنوری کو جاری ایک حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ متعلقہ محکمہ کی طرف سے 24 جنوری کو مواصلاتی خدمات کی بحالی کے حوالے سے جاری ہدایات کے بعد جموں کشمیر کی سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور باقی چیزوں کے علاوہ ہفتہ رفتہ کے دوران جنگجوانہ سرگرمیوں، وی پی این ایپلی کیشنز کی وساطت سے انٹرنیٹ کے غلط استعمال، افواہوں اور جموں کشمیر کے مفادات کے لیے ضرر رساں پیغامات کی تشہیر کا جائزہ لیا گیا۔ اس حکم نامے کے اصل مقصد کے مطابق جموں کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی بھارت کی سالمیت اور جموں کشمیر کے تحفظ اور امن کے قیام کے لیے از حد لازمی بن گیا ہے۔ گزشتہ دنوں راجیا سبھا میں وزیر اطلاعات روی شنکر پرساد نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ نے آئین کے تحت تقریر اور اظہار کے بُنیادی حقوق کے متعلق سے خیالات اور نظریہ کو پیش کرنے میں انٹرنیٹ کے استعمال کو صحیح قرار دیا ہے تاہم یہ بُنیادی حق نہیں ہے۔ پرساد نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں آئین کی توضیحات کے مطابق انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی اور ضابطوں کا نفاذ بھی ہوگا۔
اگر اکیسویں صدی کو انٹرنیٹ کا دور کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا یہ دور جس میں سماج کا ہر ایک حصہ انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہے، ایسے وقت میں بھارت دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ پر پابندیوں والا ملک بن گیا ہے جہاں تک کشمیر کی بات کریں کو 5 اگست کے بعد سے جموں کشمیر کی معیشت روبہ زوال ہے۔ کشمیر جو پہلے ہی سے ان گنت مسائل کے بھنور میں پھنس چکا ہے وہیں انٹرنیٹ کی بندشوں میں یہاں زندگی کا ہر ایک شعبہ متاثر ہوئے بنا نہیں رہا۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ سات میں سے پانچ ماہ میں ہوئے نقصان کے حوالے سے کشمیر کی سب سے بڑی تجارتی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسڑیز کے مطابق دسمبر 2019 تک کی اپنی رپورٹ میں 5 اگست کے بعد کشمیر کے دس اضلاع میں 120 دنوں میں اٹھارہ ہزار کروڑ کے نقصان کا تخمینہ کیا ہے۔ وادی کشمیر جو دس اضلاع پر مشتمل ہے اور کل آبادی کا 55فی صد حصہ ہے۔ 5 اگست کے بعد وادی کے مختلف کاروباری شعبے اور ان کے ذیلی شعبوں میں معیشت کو 17,878,18 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زراعت و باغبانی اور اس کے ذیلی شعبہ جات میں 2817 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح سے زندہ مال اور جنگلات وغیرہ کو 1764کروڑ روپے جب کہ پیداواری شعبے کو 2466 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ انڈسٹری میں تعمیری شعبے کے علاوہ کان کنی، کھدائی، بجلی، گیس، پانی اور دیگر ضروری خدمات کو 1629کروڑ کا خسارہ اُٹھانا پڑا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ تجارت بشمول ہوٹل، ریستورانوںکو 2267 کروڑ کا خسارہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مالی خدمات کو 1184 کروڑ اور ریل اسٹیٹ (real-estate) کے کاروبار کو 3125 کروڑ کا نقصان اُٹھانا پڑا۔ اسی طرح رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کشمیر کے دس اضلاع میں 5 لاکھ کے قریب لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس غیر یقینی صورتحال اور دوسری جانب سے بے روز گار ہوئے نوجوانوں میں اب نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جموں کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندشوں کی وجہ سے طلبہ بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہے، خاص طور پر وہ طلبہ جو آن لائن کورسز کرتے ہیں۔ انتظامیہ نے کشمیر میں چند جگہوں پر طلبہ اور دیگر ضرورت مندوں کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت کا محدود پیمانے پر انتظام رکھا تھا تاہم باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ جس ریاست کی آبادی 8 ملین ہوگی کیا وہاں چند انٹرنیٹ سہولتی مراکز سے ان کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں؟ ضرورت پوری ہونا تو دور کی بات ایک طالب علم نے بتایا کہ ان مراکز پر کئی کئی دنوں تک خون منجمدکر دینے والی ٹھنڈ میں طلبہ و طالبات کی قطاریں جمہوری دنیا کی نظروں نے دیکھ لی ہیں۔ ان بندشوںکی وجہ سے ہزاروں طلبہ ایسے بھی ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر کی یونی ورسٹیوں میں بر وقت داخلہ لینے میں ناکام ہوئے اسی طرح بارہمولہ سے ایک طالب علم ارشد احمد کا کہنا ہے کہ ’’میں نے پورا ایک سال جی توڑ کوشش کر کے باہرکی ایک یونی ورسٹی میں داخلہ کے لیے امتحان بھی دیا جو میں نے پاس بھی کیا ہے لیکن انٹرنیٹ کی بندش کے سبب میں وقت پر یونی ورسٹی حکام کی طرف سے ارسال کیے گئے برقی پیغام کا جواب نہیں دے پایا اور گزشتہ دنوں جب میں نے وہ میل دیکھا تو انتہائی تکلیف محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری طلبہ کی قسمت کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں کر پایا‘‘۔
ایک طرف جموں کشمیر میں انٹرنیٹ اور سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر شدید نوعیت کی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں وہیں دوسری طرف پانچ ماہ تک خاموش رہنے کے بعد بھارتی عدالت عالیہ کے حکم کے بعد جموں کشمیر کی انتظامیہ کی سماجی انٹرنیٹ پر سے پابندی ہٹا کر 5gکے زمانے میں 2gانٹرنیٹ کی سہولت میسر کرنا عوام کی سمجھ سے باہر تھا۔ جس پر جموں کشمیر کی عوام کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا تاکہ دنیا کو لب کشائی سے روکا جائے۔اس فیصلہ کو عوام ایک مذاق کے طور پر ہی لیتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کا کشمیریوں کو بندشوں کے سبب پتھر کے زمانے میں دیکھ کرکچھ حساس اور جمہوریت و ا نسانی حقوق کے دعوے دار کشمیر میں انٹرنیٹ بندشوں پر کبھی کبھی لب کشائی کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کا کشمیر میں انٹرنیٹ پر بندشیں لگانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اس لیے بھارت کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام پر پابندیوں سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس نے بھی اپنے ایک بیان میں کشمیر میں جار ی پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان پابندیوں سے انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے بھی چند ہفتے پہلے کہا ہے کہ انٹرنیٹ عوام کا بنیادی حق ہے۔ جمہوری ممالک میں بھارت نے انٹرنیٹ پر بندشوں میں پہلی پوزیشن اختیار کر لی ہے۔ بھارت ہی کے ایک موقر انگریزی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں شائع ایک مضمون کے مطابق جموں کشمیر میں موجودہ انٹرنیٹ کی بندش ملک کی طویل ترین بندش ہے۔ اس سے قبل 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد 133دنوں تک کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی رہی۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی انٹرنیٹ پر گاہے گاہے بندیشیں لگائی جاتی ہیں کل ملا کر بھارت میں سال 2019 میں 95بار انٹرنیٹ پر بندشیں عائد کی گئی ہیں لیکن جموں کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی سال 2019 میں پوری دنیا میں طویل ترین پابندیوں میں شمار کی جاتی ہے۔
غرض انٹرنیٹ موجودہ دور میں ایک انسان کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال بُنیادی حق گردانا جاتا ہے بلکہ دور حاضر میں دنیا کا ہر ایک کام انٹرنیٹ ہی سے جُڑا ہوا ہے وہ چاہے حکومتوں کے کام کاج، کالج اور یونی ورسٹیوں میں پڑھائی، شفا خانوں میں مریضوں کے علاج اور میڈیا اور روزگار کے نہ جانے کتنے ذریعے ہیں جو انٹرنیٹ کی مددسے حاصل کیے جاتے ہیں 5 اگست کے بعد پانچ ماہ تک انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے جموں کشمیر کی معاشی صورتحال قابل رحم ہے۔ جس کی وجہ سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں عوام کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ اس ساری پیچیدہ صورتحال کے حوالے سے دنیا کی ذی حسِ روحوں کو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں اور انٹرنیٹ پر بندشوں پر کھل کر بات کرنی چاہے تاکہ کشمیری اس عذاب سے نجات پا کر چین کی زندگی جی سکیں۔