جاوید الرحمن ترابی
بھارتی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 20 مارچ کو علی الصباح ’’نربھیا ریپ کے بعد قتل کیس‘‘ کے چار مجرموں کو دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔ اگرچہ اس قسم کے اعلانات پہلے بھی ہوتے رہے مگر مجرموں کی پھانسی ملتوی کی جاتی رہی تہاڑ میں آخری پھانسی یعقوب میمن کو 30 جولائی 2015 کو دی گئی تھی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کچھ عرصے سے اس امر کا اظہار کر رہے ہیںکہ مودی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود بی جے پی کے لیڈر اسے پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں اب خود بھارت کی وزراتِ داخلہ کی جانب سے یہ اعتراف سامنے آیا ہے کہ دہلی سرکار مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی اور متعصبانہ طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو تو کردہ و ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے جبکہ ہندوئوں کے ضمن میں ایسا نہیں ہوتا اس کی ایک مثال ممبئی سے تعلق رکھنے والے یعقوب میمن کو 30 جولائی 2015 کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جانا تھا ان پر الزام تھا کہ وہ مارچ 1993 میں ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کی سازش میں ملوث تھے۔
یعقوب میمن اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اس واقعہ سے قبل ممبئی میں ایک بڑی فرم میں بطورِ چارٹرڈ اکائونٹنٹ کام کرتے تھے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ برسوںکے دوران بھارت میں 1303 افراد کو سزائے موت سنائی گئی جن میں سے محض تین افراد کو پھانسی دی گئی۔ 2012 میں اجمل قصاب اور نو فروری 2013 کو افضل گرو کو‘ اس طویل عرصے کے دوران پھانسی کی سزا پانے والے یعقوب میمن تیسرے فرد تھے اسے محض اتفاق سمجھنا چاہیے؟ کہ تینوں افراد ہی مسلمان تھے۔ دوسری جانب بھارتی لوک سبھا کے رکن اور مجلسِ اتحاد المسلمین (MIM) کے سربراہ ’’اسد الدین اویسی‘‘ نے بھارتی ٹی وی چینل ’’آج تک‘‘ کو انٹرویو میں کہا کہ ’’1991 میں راجیو گاندھی قتل ہوئے اور ان کے قاتلوں کو تا حال پھانسی نہیں دی گئی کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھے اسی طرح 1995 میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ’’بے انت سنگھ‘‘ کے قاتلوں کو تاحال پھانسی نہیں دی گئی کیونکہ وہ بھی مسلمان نہیں۔ ہندو کا انصاف یہ ہے کہ دسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں ممبئی میں فسادات کے دوران نو سو مسلمانوں کو مارنے والے کسی ایک بھی شخص کو گرفتار تک نہیں کیا گیا جسٹس ’’’شری کرشن‘‘ رپورٹ میں 35 افراد کو بطورِ ملزم نامزد کیا گیا تھا مارچ 2002 میں گجرات کے شہر گاندھی نگر کے ’’نرودہ پاٹیا‘‘ میں 97 مسلمانوں کو زندہ جلا نے والے بابو بجرنگی اور مایا کوڈنانی کی سزائے موت عمر قید میں بدل کر انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اسی دوران عشرت جہاں اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے والے امیت شاکو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ بی جے پی کا صدر اور اب مرکزی وزیر داخلہ بھی بنا دیا گیا 1987 میں یو پی کے مقام ہاشم پورہ میں 47 مسلمانوں کو گولیاں مار کر ان کی لاشیں نہر میں پھینک دی گئیں مگر مارچ 2015 میں اس سانحے کے تمام ملزمان کو بھی با عزت بری کر دیا گیا۔ آسام کے مقام ’’نیلی‘‘ میں قتل کیے جانے والے 3300 افراد میں سے کسی ایک کے بھی قاتل کو سزائے موت نہیں ملی اور سمجھوتا ایکسپریس میں خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 68 مسلمانوں کو زندہ جلانے والے کرنل شری کانت پروہت، میجر اپادھیا، سوامی اسیمانند اور پرگیہ ٹھاکر کو نہ صرف باعزت بری کیا گیا بلکہ پرگیہ ٹھاکر کو بطور انعام بھوپال سے بی جے پی کے ٹکٹ پر رکن لوک سبھا بھی بنا دیا گیا۔
عیسائی خاتون وکیل ’’روہنی سیلان‘‘ نے دہلی سرکار کی اس نا انصافی کے خلاف استعفا دے دیا تھا بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کے واقعات اکثر و بیش تر پیش آتے رہے ہیں۔ کسے علم نہیں کہ جون اور اکتوبر 1984 میں مارے جانے والے ہزاروں سکھوں کے قاتلوں کو سزا نہیں ملی بلکہ جگدیش ٹائٹلر اور ’’ایچ کے ایل بھگت‘‘ کو وزارتوں سے نوازا گیا۔ 1999 میں اڑیسہ میں عیسائی ڈاکٹر ’’گراہم اسٹینلے‘‘ اور ان کے بچوں کو اڑیسہ میں زندہ جلانے والا دارا سنگھ با عزت بری ہونے کے بعد بجرنگ دل کا بڑا لیڈر بن گیا۔ 2002 میں گجرات میں جس شخص کی سرپرستی میں ہزاروں مسلمانوں کو تہِ تیغ کر دیا گیا اور جسے امریکا اور برطانیہ نے اسی جرم میں ملوث ہونے کی وجہ سے اپنے یہاں کا وزٹ ویزہ تک دینے سے انکار کر دیا وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہے۔