عورت مارچ عورت کی توہین

317

قاسم جمال
آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر اسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں لبرل خواتین نے آزادی مارچ کے نام پر جو طوفان بد تمیزی مچایا اور عالمی ایجنڈے کے تحت موم بتی مافیا نے مردوں کی تضحیک کی اس سے سب کے سر شرم سے جھک گئے۔ چند سو لبرل خواتین نے ’’عورت کیا چاہتی آزادی اور میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے بے ہودہ نعرے لگا کر تمام اخلاقیات اور تہذیب کو مات دے دی۔ عدالت عالیہ نے بھی بے ہودہ نعروں پر پابندی کے احکامات صادر فرمائے تو لبرل ازم کی دلدارہ اس لابی پر ایک قیامت سی برپا ہوگئی اور پھر ان قوتوں نے ایک بار پھر عورت مارچ کے نام پر عورت کی توہین کا پروگرام مرتب کیا۔ گزشتہ دنوں پاکستانی ڈراما نگار خلیل الرحمن قمر نے عورت مارچ کی روح رواں ماروی سرمد کو ٹی وی پروگرام میں اس کا اصل اور مکروہ چہرہ پوری بے نقاب کیا اور ان کی جو عزت افزائی کی اس نے سوشل میڈیا پر ایک نیا طوفان برپا کر دیا اور خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد کے حامی اور مخالفین نے سوشل میڈیا پر مورچے سنبھال لیے اور ایک دوسرے پر لعن طعن شروع ہوگئی اور سخت ناپسندیدہ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے بھی عورت مارچ کی حمایت کی جبکہ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی سسی پلیجو نے قومی اسمبلی اجلاس میں خلیل الرحمن قمر کے خلاف اور ماروی سرمد کی حمایت میں تقریر کی۔ عورت مارچ اگر مظلوم خواتین کے حقوق کے لیے برپا کیا
جاتا توشاید ہی کوئی اس کی مخالفت کرتا لیکن لبرل ازم کی دلدارہ جس طرح طلبہ تنظیم بحالی مہم کے سلسلے میں نکالی جانے والی ریلی میں ’’سب لال لال ہوجائے گا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان خواتین نے اپنے مردوں اور شوہروں کو کتا بنا کر پیش کرکے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ان بے حیا نعروں نے ہر شخص کی حمیت اور غیرت کو لکارا ہے۔ ماروی سرمد کی حمایت میں سیخ پااکثر چہرے وہی ہیں جو اس کائنات کی معزز ترین شخصیت کے بارے میں ہونے والی زبان درازی اور گستاخی کو اظہار رائے کا نام دیتے اور گستاخوں کے ساتھ اظہار ہمدردری رکھتے ہیں۔
دوسری جانب اس سارے کھیل میں اصل کردار میڈیا کا ہے جس نے غیر ضروری طور پر ان خرافات کو بھرپور طریقے سے نہ صرف نشر کیا بلکہ اس کی بھرپور کوریج بھی کی۔ پاکستان میں لادینیت اور فحاشی پھیلانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کام کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں مغربی ممالک سے فنڈ وصول کرنے والی این جی اووز آگے بڑھ کر یہ کام کر رہی ہیں۔ ٹی وی چینل میں دکھائے جانے والے ڈراموں کے ذریعے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کیا جا رہا ہے اور نسل نو کو گمراہی کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔ عورت مارچ کے ذریعے عورت ہی کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ آزادی کے نام پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی جس میں مادر پدرسب آزاد ہوں۔ آج مغربی تہذیب کی دلدارہ موم بتی آنٹیاں ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس میں وہ اپنے جسم کی نمائش نہ کر سکے۔ ویلن ٹائن ڈے کے بعد اب عورت کی آزادی کے نام پر عورت کی پاکیزگی کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انتہائی واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہی ہوگا۔ جبکہ پاکستان کے آئین میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا لیکن یہ سب باتیں مغربی دلدارہ قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہی ہیں اور یہ بے دین قوتیں ننگی تہذیب کو برپا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور اسلام اور ہماری تہذیب کے خلاف پوری قوت کے ساتھ زہر افشانی کی جا رہی ہے۔ ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر کا ٹاکرا ایسے منظر نامے میں جب عورت مارچ کے نام پر بے حیائی اور بے ہودگی کا ایک سیلاب امڈ کر آیاہے۔ ’’سب لال لال ہوجائے گا‘‘ کا نعرہ لگانے والے آگ سے کھیل رہے ہیں اور پاکستان کی نسل نو کے تشخص کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ابلیسی تہذیب وثقافت کو ہم پر مسلط کر کے ہمارے ایمان کو بھی چیلنج دیا جا رہا ہے۔ پاکستان جو ایک اسلامی ملک ہے اس میں اس طرح کی بے حیائی کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا ئے گا۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ خرافات کے ان پروگرامات پر پابندی عائد کرے کہ آزادی نسواں کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب 8مارچ ہی کو جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی جانب عالمی یوم خواتین کے موقع پر خواتین کانفرنس منعقد کی گئی اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں اس میں شرکت کی۔ کراچی میں باغ جناح میں ہونے والی عظیم الشان خواتین کانفرنس کراچی کی تاریخ کی سب سے بڑی خواتین کی کانفرنس ثابت ہوئی۔ ملک بھر میں یوم خواتین کے موقع پر باپردہ خواتین سڑکوں پر نکلیں اور انہوں نے اعلان کیا کہ امت کی مائیں بہنیں بیٹیاں اسلام کا عادلانہ نظام اور اسلامی تہذیب کا غلبہ چاہتی ہیں۔ پاکستان کی خواتین اسلامی اقدار اور روایات سے گہری اور والہانہ وابستگی رکھتی ہیں اور اسلامی شریعت کے احکامات کی پابندی ربّ کی رضا کے لیے کرتی ہیں۔ چند مغرب زدہ خواتین مساوات مردوزن اور حقوق کے نام پر عزت ماب خواتین کو کبھی بھی دھوکا دینے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔