چھوٹے پلاٹوں پر بلند عمارتیں: ذمے دار کون

304

 9مارچ بروز پیر کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ کراچی میں چھوٹے پلاٹوں پر تین ہزار بلند عمارتوں کو ایس بی سی اے کے ڈی جی نسیم الغنی نے گرانے کا حکم دے دیا ہے۔ خبر کی تفصیل یہ ہے کہ سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی نے کراچی میں چھوٹے پلاٹوں پر تعمیر شدہ کم وبیش تین ہزار بلند غیر قانونی تعمیرات کا پتا لگا لیا ہے، جن کو جلد منہدم کرنے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ واہ بھئی واہ ایس بی سی اے زندہ باد اس نے تو بہت بڑا کارنامہ انجام دیا کہ لیاقت آباد میں ایسی ہزاروں عمارتوں کو ڈھونڈ نکالا ہے جن میں ایک جگہ 3/84میں 40گز کے پلاٹ پر 7منزلہ ایک خطرناک عمارت بھی شامل ہے۔ اس پر اس ادارے کو نوبیل انعام ملنا چاہیے جس نے لیاقت آباد میں بلڈروں سے لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے رشوت کے وصول کر کے ان کو چالیس گز کے پلاٹ پر سات منزلہ تک عمارتیں بنانے کی حوصلہ افزائی کی۔
اب سے تین سال قبل راقم نے لیاقت آباد ڈوب رہا ہے کہ عنوان سے اخبارات میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ لیاقت آباد میں بی ایریا اور سی ایریا میں 80گز کے اور بلاک نمبر 1سے 10تک 90گز کے پلاٹ پر اب سے 50سال پہلے تک ایک خاندان یا زیادہ سے زیادہ دو خاندان رہتے تھے پھر جب آبادی میں اضافہ ہوا اور لوگوں کی ضرورتیں بڑھیں تو انہوں نے دو منزلہ تک تعمیرات شروع کیں جس کی باقاعدہ سابقہ کے بی سی اے سے نقشہ پاس کرایا جاتا یہاں تک تو پھر بھی صورتحال اتنی خراب نہ ہوئی تھی لیکن جب گرائونڈ پلس ٹو سے بڑھ کر لوگوں نے تیسری اور چوتھی منزلیں بنانا شروع کیا تو اس سے لیاقت آباد میں پانی سیوریج اور پارکنگ کے مسائل پیدا ہونے لگے۔ اب تک یہ تعمیرات لوگ ذاتی ضرورت کے تحت بنا رہے تھے لیکن جب ان تعمیرات میں بلڈر مافیا نے قدم رکھا تو اس نے پورے لیاقت آباد کا بیڑہ غرق کردیا علاقے کا ہر حصہ سیوریج کے گندے پانی سے بھرا رہتا ہے اس لیے کہ اب سے پچاس ساٹھ سال پہلے سیوریج کی جو لائینیں ڈالی گئی تھیں وہ اب اتنی بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی اس لیے جگہ جگہ سے آئے دن چوک ہوتی رہتی ہے۔ پینے کے پانی کی کمی کی شکایات عام ہوگئیں ہیں۔ لیاقت آباد میں بلڈرز کے کاروبار کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ تھی یہاں پانی 24گھنٹے آتا تھا اس لیے شہر کے ان علاقوں سے جہاں لوگوں کو پانی کی مشکلات تھیں لیاقت آباد منتقل ہونا شروع ہو گئے کہ شہر کا مرکزی علاقہ ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی سہولت اور بنیادی ضرورتوں میں پانی بجلی اور گیس کی مسلسل فراہمی کو بھی دخل حاصل ہے، لیکن اب اچانک آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے پانی کا حصول بھی مشکل ہوتا جارہا ہے گلیوں میں پہلے لوگ اپنی بائیک گھر کے اندر کھڑی کرتے تھے اب باہر کھڑا کرتے ہیں اس لیے کے اب گیلری کی جگہوں پر بھی تعمیرات ہو گئیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہر گلی میں تین چار کاریں یا ہائی روف اور بیس پچیس موٹر سائیکلیں ہوتی تھیں اب یہ حال ہے کہ ایک گلی میں بیس پچیس گاڑیاں اور ڈیڑھ سو سے دو سو تک موٹر سائیکلیں ہوتی ہے اس کی وجہ سے گاڑیوں کے گزرنے کے علاوہ پیدل چلنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
لیاقت آباد میں 2000 تک عام طور سے چار منزلہ عمارت تعمیر ہوتی تھی جو مالک مکان خود اپنی فیملی کی ضرورت کے مطابق بناتے تھے لیکن جب اس میں بلڈر مافیا کا عمل دخل ہوا تو شروع شروع میں ان بلڈروں نے بھی گرائونڈ پلس فور تک بنایا جس میں 10پورشنز ہوتے پھر 4thفلور کے اوپر پینٹ ہائوس کا سلسلہ شروع ہوا اس میں متعلقہ ادارے والے آتے تو ان کا منہ بند کرنے کے پورے انتظامات ہوتے۔ پھر بلڈروں کی ہوس کچھ اور آگے بڑھتی ہے اور گرائونڈ پلس فائیو تک 12پورشن اور چھٹی منزل پر پینٹ ہائوس بن گیا اب ایسا ہورہا ہے کہ 90گز کے پلاٹ پر گرائونڈ پلس 5سے بڑھ کر گرائونڈ پلس 6بننا شروع ہوا اور ساتویں منزل پر پینٹ ہائوس۔ پہلے یہ تعمیرات 80اور 90گز کے پلاٹ پر ہوتی تھیں لیکن پھر 40اور 45گز کے پلاٹ پر ہونے لگیں، 10مارچ بروز منگل کے اخبار میں اسی سات منزلہ بلڈنگ کے گرانے کی تصویر شائع ہوئی ہے۔
چھوٹے پلاٹوں پر بلند تعمیرات کا سلسلہ لیاقت آباد ہی میں تک محدود نہیں ہے بلک یہ گلبہار (جہاں پچھلے دنوں ایک پانچ منزلہ عمارت گری ہے جس نے پڑوس کی دو عمارتوں کو بھی متاثر کیا اور وہ بھی گرادی گئیں اس میں اب تک 27افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے متاثرہ بلڈنگوں کے متاثرین روزآنہ پلے کارڈ اٹھائے ہوئے متبادل جگہ کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں) ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، پاک کالونی، اورنگی ٹائون اور شہر کے دیگر علاقوں میں بھی ہے، باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایس بی سی اے نے این ای ڈی یونیورسٹی سے پورے شہر میں اس حوالے سے سروے کرانے کا باقاعدہ معاہدہ کیا ہے۔ اس کے بعد شاید کوئی پالیسی بنائی جائے۔ سردست تو صورتحال یہ ہے کہ ایس بی سی اے کے اہلکاروں نے رشوت لے کر یا بغیر رشوت لیے بلڈروں کو کھلی چھوٹ دی وہ تو اپنے پیسے بنا کر نکل گئے پھنس گئے وہ غریب لوگ جنہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر ادھار قرض لے کر اپنی جمع پونجی سے رہائش کے لیے یہ فلیٹس خریدے ہیں۔
لیاقت آباد اور کراچی کے دیگر علاقوں میں اگر بلند عمارتیں گرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو اس سے بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، حکومت سندھ اسی بات سے پریشان ہے کہ ریلوے کی زمینوں پر جو قابض ہیں ان کو کیسے اور کہاں متبادل جگہ فراہم کی جائے جبکہ عدالت عظمیٰ نے 6مہینے کا وقت دیا ہوا ہے۔ بلند عمارتوں کو توڑنے سے پہلے ہمیں اس جرم کے اصل ذمے داروں کا پتا لگانا ہوگا۔ اس کا پہلا ذمہ دار ایس بی سی اے ہے کہ جس کی ذمے داری ان عمارتوں کی تعمیر سے روکنا تھا اس نے بھاری رشوتیں لے کر ان بلڈروں کو کھلی چھوٹ دی میرے پڑوس میں ایک صاحب اپنی بلڈنگ بنارہے تھے تیسری منزل کی چھت بھرائی کے لیے سریا بچھایا جا چکا تھا پھر اچانک ہم نے دیکھا کہ چھت سے لوہا اتارا جارہا ہے معلوم یہ ہوا کہ ان سے ایس بی سی اے والوں نے اوپر کی تعمیر کے لیے بھاری رشوت طلب کی انہوں نے کہا کہ میں نے حلال کے پیسوں سے مکان بنایا ہے میں رشوت نہیں دوں گا اور اپنی تعمیر روک دی جو سمنٹ بجری اور سریا وغیرہ تھا اسے اونے پونے بیچ دیا۔ یہ تو ایک صاحب کا ذاتی مسئلہ تھا بلڈروں کا معاملہ تو دوسرا ہے ان کا تو پورا ایک نیٹ ورک قائم ہے ایس بی سی اے کو کتنا دینا ہے، کے الیکٹرک، کے ایم سی، مقامی تھانے، سوئی گیس ڈپارٹمنٹ، اور علاقے میں اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی تنظیم کو کب کتنا دینا ہے ان کے سارے کام آسانی سے ہو جاتے ہیں۔ اب سے چند برسوں پہلے تک ایم کیو ایم کی ایک دہشت تھی اس لیے بہت سے بلڈروں نے اس تنظیم کے با اثر لوگوں کو اپنا پارٹنر بنا لیا اور پھر اس تنظیم کے لوگ ہی بلڈر بن گئے۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا اس سرگرمی کے نتیجے میں لیاقت آباد میں مکانات کے دام اچانک بڑھ گئے۔ 1997میں 90گز کا جو مکان دس لاکھ کا تھا اب صورتحال یہ ہے اسی طرح کے سنگل اسٹوری کی قیمت کروڑ تک اور کارنر کے مکان دو سے ڈھائی کروڑ تک پہنچ گئے۔اب ہو یہ رہا ہے کہ ایک بلڈر زمین خریدتا ہے کچھ سرمایہ کار آجاتے ہیں جو اس سے پہلے پورشنز اور دکانوں کا سودا کر لیتے ہیں اس طرح بلڈر دوسروں کی سرمایہ کاری سے بلڈنگ تعمیر کرتا ہے کچھ عرصے بعد سرمایہ کاری کرنے والے لوگ کچھ منافع پر اسے فروخت کر دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں اس میں کئی لوگوں کے روزگار بھی قائم ہیں لیکن دوسری طرف تکلیف دہ صورتحال یہ بھی ہے علاقے کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے اس پر کہیں روک لگنا چاہیے میری تجویز حکومت اور عدالت عظمیٰ کو گزارش کی شکل میں یہ ہے کہ لیاقت آباد اور دیگر علاقوں میں چار منزل تک کی خصوصی اجازت دے دی جائے۔ ایس بی سی اے کے جن افسران نے رشوت لے کر یہ خوفناک صورت حال پیدا کی ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے انہیں گرفتار کیا جائے بلڈروں کو گرفتار کیا جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ اپنے بنائے ہوئے مکانات کی چار منزل سے اوپر کے فلور کو خود گرادیں اور رہائش پزیر لوگوں کو ان کی رقوم واپس کی جائیں اگر اس طرح کی کوئی کارروائی کیے بغیر اقدمات اٹھائے گئے تو اس سے علاقوں میں امن امان کے مسائل کے علاوہ حکومت کے خلاف نفرت کی لہر اٹھ جائے گی جس اثرات کے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔