کوروناکا ٹیسٹ، لوٹ مار کا ذریعہ

386

پاکستان کا بھی عجیب حال ہے کہ قدرتی آفت کو بھی لوٹنے کا ذریعہ بنانے سے باز نہیں آتے ۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی کورونا کے خوف میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ اب خوفزدہ عوام سے ہر طرف سے حسب استطاعت لوٹنے کا سلسلہ شروع ہو کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اسپتال سب سے آگے ہیں۔ کورونا سے خوفزدہ عوام کو سرکار کے ساتھ میڈیا کے ذریعے مزید ڈرایا جا رہا ہے مگر ان کو اس خوف سے نکالنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ چنانچہ لوگوں نے خود ہی ٹیسٹ کرانا شروع کر دیئے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد آغا خان، اوجھا، جناح اسپتال اور دیگر پرائیویٹ اسپتال پہنچ گئی لیکن اس حوالے سے آغا خان اسپتال نے سات ہزار نو سو روپے فی ٹیسٹ وصول کیے۔ اسی طرح دیگر اسپتال اور لیبارٹریز بھی یہی رقم وصول کر رہے ہیں۔ اگر سات ہزار روپے فی کس کے حساب سے دو کروڑ کے شہر میں دس ہزار لوگ بھی ٹیسٹ کروا لیں تو کم از کم 8 کروڑ روپے بنتے ہیں اور اگر ایک لاکھ لوگ ٹیسٹ کرا لیتے ہیں تو یہ 80 کروڑ روپے بنیں گے۔ گویا بیماری کے علاج سے پہلے اربوں روپے بٹورنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یہ تو ٹیسٹ کی بات ہے ۔ جن لوگوں میں کورونا کے مرض کی مثبت رپورٹیں آئیں گی ، ان سے علاج کے نام پر مزید لاکھوں روپے فی مریض وصول کیے جائیں گے ۔ چین میں کورونا کی اطلاعات کو ڈھائی ماہ اور پاکستان میں پہلے مریض کی اطلاع کو ایک ماہ ہونے کو ہے۔ حکومت پاکستان کے محکمہ صحت کے ماہرین نے اس حوالے سے کیا اقدامات کیے۔ پاکستان میں پہلے مریض اور ایران سے درجنوں کے حساب سے آنے والے مشتبہ کیسز کے بعد کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے کٹ درآمد کرنے کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا اور سرکار نے اس میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈالا۔ جو اسپتال چیریٹی کے نام پر بنے ہیں وہ بھی اور جو سرکاری ہیں وہاں بھی بھاری فیس لے کر ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ جس طرح میڈیا کے ذریعے عالمی اداروں کے اشارے پر بیماری سے زیادہ خوف پھیلایا جا رہا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لوگ اپنے بارے میں کس قدر فکر مند ہوں گے اور بھاری فیس بھی دینے کو تیار ہوں گے۔ کیا حکومت کا کام محض خوف پھیلانا ہے ۔ حکومت کا کام سہولیات کی فراہمی ہے اور موجودہ صورتحال میں کٹ کی فراہمی اور علاج کی مفت سہولت فراہم کرنا حکومت کا پہلا کام ہونا چاہیے ۔ حکومت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ ایک تو خوف نہ پھیلانے دیا جائے دوسرے لوگوں کو طبی سہولیات بہتر انداز میں فراہم کی جائیں۔