جنسی تشدد پر موت کی سزا کیوں نہیں؟

551

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد کے انسداد کے لیے ماڈل عدالتیں بنائی جائیں اور سزا پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ ان کا فرمانا ہے کہ پولیس بچوں پر جنسی تشدد کے جرم کی سنگینی سے آگاہ نہیں ہے اس لیے اس حوالے سے خصوصی سیل قائم کیے جائیں ۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ جب جماعت اسلامی بچوں پر جنسی تشدد کرنے والوں کے خلاف موت جیسی سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن ،اے این پی ، مسلم لیگ ق ، متحدہ قومی موومنٹ سمیت سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود تمام ہی ارکان اسمبلی اس کے خلاف ووٹ دیتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے اکلوتے سینیٹر اور اکلوتے رکن قومی اسمبلی جب اس پر بھی خاموش نہیں رہتے اور بھرپور احتجاج کرتے ہیں تو چیئرمین سینیٹ اور سرکاری ارکان قومی اسمبلی ایک ہی بات کرتے ہیں کہ پہلے قانون منظور ہونے دیں پھر اس کے بعد جماعت اسلامی اس قانون میں ترمیم لے آئے ، اس پر غور کرلیں گے ۔ یعنی جب قانون بن رہا ہے ، اس وقت اس میں تبدیلی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی مگر کہتے ہیں کہ بعد میں کرلیں گے ۔ یہ کچھ مٹی پاؤ جیسا معاملہ ہے ۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ قانون فوری طور پر منظور کرلیا جائے ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر جنسی تشدد کے مجرم کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ میں موجود ساری ہی جماعتیں کیوں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک ہوگئیں ۔ اب لکیر پیٹتے رہیں کہ بچوں پر جنسی تشدد رکنے کے بجائے پھیل رہا ہے ۔ پارلیمنٹ میں جس انداز میں زینب الرٹ بل منظور کیا گیا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ این جی اوز کو فنڈ فراہم کرنے والوں کا ارکان پارلیمنٹ پر کس قدر دباؤ اور اثر تھا۔ جماعت اسلامی کے ارکان کے سوا ایک بھی رکن پارلیمنٹ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کہہ سکتا بچوں پر جنسی تشدد کرنے والے سفاک افراد کی موت کے علاوہ کوئی سزا نہیں ہے ۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز تو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں ، کیا انہیں اس امر کا علم نہیں ہے کہ اسلام میں زنا بالرضا کی سزا بھی رجم ہے ۔ یعنی عوام کے سامنے سنگباری کرکے مجرم کو ہلاک کردیا جائے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچوں پر جنسی تشددکرنے کے مجرموں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے ۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ حکومت کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے اور سرکار کو بتاتے کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے ۔جس سیمینار میں ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بچوں پر جنسی تشدد کے مجرموں کے لیے ماڈل عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، اسی سیمینار میںجماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے پختون خوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی نے پھر جماعت اسلامی کا مطالبہ دہرایا کہ بچوں پر جنسی تشدد کے مجرموں کو موت کی سزا دینے کا قانون بنایا جائے مگر اس سیمینار میں بھی ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اس کی تائید کرنے سے گریز کیا ۔ بچوں پر جنسی تشدد کی وبا صرف اس لیے پھیل رہی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں بھی اس قبیح جرم کے مرتکب افراد کو عملی طور پر تحفظ فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں ۔ یہ بات بھی سامنے آتی رہی ہے کہ اس قسم کا جرم محض وقتی جذباتی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ یہ مجرم اس کے لیے پوری منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس کی ریکارڈنگ کرکے اس کی وڈیو بھاری رقم کے عوض بین الاقوامی نیٹ ورک کو فروخت کرتے ہیں ۔ اس طرح سے تو یہ جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یہاں پر آکر خواتین اور بچوں کے حقوق کی بات کرنے والے بھی خاموش ہیں بلکہ کہیں گم ہوجاتے ہیں ۔ بین الاقوامی ایجنسیوں سے رقم وصول کرکے ملک میں عورت سے روٹی پکوانے پر تو یہ این جی اوز قیامت برپا کرنے کو تیار رہتی ہیں مگر خواتین کا اصل مسئلہ انہیں نظر نہیں آتا ۔ یہاں پر میرا جسم اور میری مرضی کا فارمولا اور اس پر طبلے کی تھاپ پر ناچنے والے صم بکم ہوجاتے ہیں ۔ان این جی اوز کو زوجین کے حقوق کی ادائیگی تو جنسی جرم معلو ہوتی ہے مگر حقیقی جنسی تشدد پر سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کا آج تک ایک بھی مجرم گرفتار نہیں ہوا ہے ۔ اس کی وجہ ملک کے پولیس کے نظام کے ساتھ ساتھ ان مجرموں کا بااثر ہونا ہے ۔ جس ملک میں حاضر سروس جج کو اپنے چیمبر میں جنسی تشدد کرنے پر سزا نہ ملے ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں بااثر مجرموں کی پولیس کس طرح سے مدد کرتی ہے ۔ اس جانب عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ وہ اگر صرف یہی کام کرجائیں کہ عدالتیں بروقت میرٹ پر فیصلے دینے لگیں تو ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا ۔ یہ بات بھی سامنے ہے کہ ماتحت عدالتوں کے اکثر فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں جا کر تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ اس سے دو ہی نتیجے نکلتے ہیں ، یا تو ماتحت عدالتیں نااہل ہیں یا پھر وہاں پر رشوت اور بااثر افراد اثر انداز ہوتے ہیں ۔ دونوں ہی صورتیں انتہائی خطرناک ہیں ۔ اگر ماتحت عدالتیں درست فیصلے دینے لگیں تو اس سے نہ صرف معاشرہ جرائم سے پاک ہوگا بلکہ اعلیٰ عدلیہ پر سے بھی مقدمات کا دباؤ کم ہوگا ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ وزراء اپنے محکموں کے افسران کو اس کا پابند کرنے کے بجائے وہ اپنا کام کریں ، خود ہی نچلی سطح پر اداروں پر جا کر حاضریاں چیک کرتے پھرتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی حال عدلیہ کا بھی نظر آنے لگا ہے کہ عدالتی نظام کو درست کرنے کے بجائے اعلیٰ ترین عدالتیں نچلی سطح کے معاملات کو فیصل کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔