محمدؐ اور شہری

337

منصوبہ بندی
اسد اللہ خاں شہیدی

ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ آیا تھا اور آخرکار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلے میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ (بخاری) ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق نبی پاکؐ نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا تھا، اس منصوبے کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہؐ نے نوآبادی (کالونائزیشن) اور شہری منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کا م کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں، طبقوں، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آکر جمع ہورہے تھے، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں… جیسا کہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے… رسول کریمؐ کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعے کا مستحق ہے، جدید شہروں میں آبادی کے دباؤ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبیؐ سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
دنیا کو سب سے پہلے رسالتؐ نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں؛ بلکہ ایسا ہم آہنگ اورصحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی، روحانی بالیدگی، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلی انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کا سبب بنے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیا تھا، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دارالخلافہ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا، دوسرے مرحلے کا آغاز نووارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا؛ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے و منصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا۔
مدینۃ الرسول، ایک لحاظ سے ’’مہاجربستی‘‘ تھی، گو سارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہو تو مکانات اور تعمیرات کا سلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآبؐ ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے، عوالی میں رہنے والے بنوسلمہ نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نامنظور کردیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی، ریاست کی نوآبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے، بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے؛ بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظا م بھی سرکار ی طور پر کیا جاتا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یا مکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا گویا مہاجرین کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمے داری تھی۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پر مشتمل ہوتا تو انھیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا؛ تاآنکہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے اولاً یا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیاجاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلیں؛ مگر خیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا جبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموماً بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا؛ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتا ہے کہ نبیؐ نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیحدہ رہائش کے لیے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے۔ (ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری)
عہد نبوی کے اواخر میں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحا تک، مشرق میں بقیع الغرقد تک اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانا ت تک پھیل چکا تھا۔ رسول اللہؐ نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں نبی کا یہ اقدام زبر دست اہمیت کا حامل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جنھیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرے کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملاہو۔ آپؐ نے شہرِ نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا، اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (500)پانچ سو ہاتھ مقرر کی، اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپؐ نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پر عمل کرتے ہوئے دو اقدام اٹھائے، ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یا تو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، تاکہ اس طرح ایک طر ف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جاسکے، دوسری طر ف یہ کہ قریظہ اور نضیر کی مفتوحہ بستیوں یا جوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا؛ تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جاسکے، اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآبؐ نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ (نسائی، کتاب الصلاۃ)
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انھیں ذریں اصولوں پر جنھیں رسول اللہؐ نے چودہ سو سال پہلے آزمایا تھا، عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں، ایک حد تک کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔