سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ

559

نام و نسب:
معاویہ بن ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن ہاشم بن عبد مناف۔ آپ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر رسولؐ سے مل جاتا ہے۔
ولادت:
سیدنا معاویہؓ ظہوراسلام سے پانچ سال قبل 608ء میں مکہ میں پیدا ہوئے، گویا ہجرت نبوی کے وقت آپ کی عمر 18 سال اور فتح مکہ کے وقت 27 سال تھی۔
قبول اسلام:
آپؓنے ابتدائے اسلام میں ہی اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھا سردار ِمکہ ابوسفیان کے گھر پیدا ہونے کے باوجود جو کہ اسلام کے مقابلے ہر میدان کے لیڈر ہوتے تھے کبھی بھی نبیؐ کے مقابلے میں کسی جنگ میں شرکت نہ کی۔ اسی بات کا اثر تھا کہ عمرۃ القضا 7ھ کے موقع پر اپنے اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا اور خدمت نبوی میں پیش ہوگئے۔
سخاوت وبہادری:
آپؓ کی کنیت ابو عبدالرحمن تھی ایک سردار کا بیٹا ہونے کی وجہ سے آپ کے ماں باپ نے آپ کی تعلیم وتربیت میں اس وقت کے عرب دستور کے مطابق کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ مختلف علوم وفنون سے آپ کو آراستہ کیا۔ آپ کا شمار ان چند گنے چنے لوگوں میں ہونے لگا جو علوم وفنون سے آراستہ تھے اور لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قبول اسلام سے قبل کیحالات میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آپ قوم کے سردار تھے۔ جن کی لوگ اطاعت کرتے تھے اور صاحب ِمال ودولت اور سخی تھے۔
کارہائے نمایاں:
آپ کے کے کارناموں کا آغاز سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے زمانۂ خلافت سے ہوتا ہے۔ منکرین زکوٰۃ اور مدعیان نبوت کی سرکوبی میں پیش پیش تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ دشمن رسول، مدعی نبوت، مسیلمہ کذاب کو سیدنا وحشی بن حربؓ نے حربہ مار کر زخمی کیا اور سیدنا معاویہؓ نے اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔
فتوحات:
خلافتِ صدیق اکبر، خلافتِ فاروق اعظم، خلافتِ عثمانؓ میں نمایاں کردار رہا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ان کے بڑے بھائی یزید بن ابی سفیانؓ کے انتقال کے بعد 18ھ میں انہیں دمشق کا حاکم مقرر کر دیا۔ سیدنا عثمانؓنے اپنے دور خلافت کی ابتداء￿ میں ہی سیدنا معاویہؓ کو پورے شام کا والی اور حاکم بنادیا۔ جنگ یمامہ کے بعد قیساریہ، صیدا، عرقہ، بیروت، انطاکیہ، طرابلس، عموریہ، ملطیہ، طرطوس، اناطولیہ، روم، قبرص جیسے علاقوں پہ قبضہ کر کے اسلامی مملکت کے جھنڈے گاڑے۔ ان میں قیساریہ شہر کے معرکے میں 80 ہزار رومی مارے گئے یہ معرکہ بھی سیدنا امیر معاویہؓ نے سر کیا۔ 31ھ میں قیصر روم نے پانچ سو جہازوں کے ساتھ ساحل شام کے کناروں پر ہجوم کیا تو سیدنا معاویہؓ کی جنگی حکمت عملی نے رومیوں کو شکست فاش دی اور رومیوں کا تباہ حال لشکر قسطنطنیہ واپس لوٹا۔ 32ھ میں سیدنا معاویہؓ نے قبرص پر حملہ اور قبضہ کیا اور پرچم اسلام لہرادیا۔
پہلا بحری بیڑہ:
سیدنا معاویہؓ نے امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفانؓ کی اجازت سے بحری بیڑہ تیار کیا اس سے قبل رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس بحری حملوں کا جواب نہ تھا۔ چار سو جہازوں پر مشتمل اس بحری بیڑے سے مسلمانوں کی بحری طاقت رومیوں سے بڑھ گئی۔اس طرح سیدنا عثمانؓ کے آخری دور میں اسلامی مملکت کی حدود ہندوستان کی سرحد سے لے کر شمالی افریقہ کے ساحل اور یورپ کے صدر دروازے تک وسیع ہوگئیں۔
خلافت ِسیدنا علیٰ المرتضیؓ:
سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد نبی کریمؐ کے داماد، سسرِ عمر جرار، سیدنا علیٰ المرتضیؓ منصب خلافت پر فائز ہوئے۔ آپ جری و بہادر انسان تھے، طبقۂ منافقین جو روزِ اوّل سے ہی اسلام کی بہاروں کو برداشت نہیں کرپارہا تھا۔ طویل محنت کے بعد شہادتِ عثمانؓ کے بعد نسل ابن ابی اورنسل ابن سبا کو کچھ کامیابی کے آثار نظر آئے اور اسلام کے دو شیروں کو قصاصِ عثمان کے مسئلے پر دست و گریبان کر دیا۔ باہمی جنگوں کی وجہ سے بلخ، ہرات، بوشیخ، باذنمس اور کابل کے علاقے باغی ہوگئے۔ شہادت سیدنا علیٰ المرتضیؓ کے بعد خلیفہ راشد وخامس و عادل برحق سیدنا حسن بن علیؓ کی صلح کے بعد سیدنا امیر معاویہؓ نے دوبارہ باغی علاقوں پر قبضہ کیا اور ان ملکوں کا ایک چپہ زمین بھی قبضے سے نکلنے نہ دی۔
سلطنت ِاسلامیہ کا حدود اربعہ:
سیدنا امیر معاویہؓ کی افواج نے قسطنطنیہ کے بعد جزیرہ روڈس اور جزیرہ اڈواڈ کو بھی فتح کیا اس طرح سیدنا معاویہؓ نے 6465000 مربع میل پر اسلامی حکومت قائم کرکے دین و عمل، سیاست و قوت، دولت و ثروت کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام و ادیان پر غلبہ پا کر آپؐ کے مقصد بعثت کی تکمیل فرما دی۔
فضل و کمال:
علمی اعتبار سے سیدنا معاویہؓ کا صحابہ کرامؓ میں نمایاں مقام تھا ابتدا میں لکھنے پڑھنے کی مہارت کی وجہ سے رسول اللہؐ نے انہیں کاتب وحی بنایا تھا۔ مذہبی علوم میں اس قدر دسترس تھی کہ صاحب فتوٰی صحابہؓ میں شمار ہوتا تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ جو علوم قرانیہ میں سب سے نمایاں تھے وہ ان کے تفقہ فی الدین اور قرآن مجید کی تفسیر و تاویل کے معترف تھے۔ 163 احادیث آپؓ سے مروی ہیں۔
رسالت مآبؐ اور سیدنا معاویہؓ:
سیدنا معاویہؓ آپؐ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدنا ام حبیبہ رملہؓ کے حقیقی بھائی تھے۔ ایک دفعہ نبیؐ نے سیدہ ام حبیبہؓ سے فرمایا:
اللہ اور اللہ کے رسولؐ معاویہؓ سے محبت کرتے ہیں اس رشتے کے لحاظ سے نبیؐ، معاویہؓ کے بہنوئی اور سیدنا معاویہؓ، نبیؐ کے برادر نسبتی تھے دوسرا رشتہ سیدنا معاویہؓ کا نبیؐ کے ساتھ یہ ہے کہ سیدنا معاویہؓ کی بیوی قریب الصغریٰ نبیؐ کی زوجہ محترمہ سیدہ ام سلمہؓ کی بہن تھیں اس رشتے سے نبیؐ اور سیدنا معاویہؓ ہم زلف تھے۔
سیدنا علی اور سیدنا معاویہؓ:
جنگ صفین کے بعد کسی نے سیدنا علیؓ کے سامنے سیدنا معاویہؓ کو برابھلا کہنا شروع کر دیا۔ علیؓ نے فرمایا: معاویہؓ کو برا بھلا نہ کہو جب معاویہ تمہارے درمیان سے اْٹھ جائیں گے تو تم دیکھو گے کہ بہت سے سر تن سے جدا ہو جائیں گے۔ ایک موقع پر سیدنا علیؓ نے فرمایا: معاویہ میرا بھائی ہے ہم اس کی برائی پسند نہیں کرتے۔
سیدنا حسن اور سیدنا معاویہؓ: سیدنا حسنؓ نے خلافت سے دستبردار ہو کر امامت و خلافت سیدنا معاویہؓ کے سپرد کر دی اور فرمایا میں معاویہ کو ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے آپ کو شیعان علی کہتے ہیں۔
سیدنا حسین اور سیدنا معاویہؓ:
سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ نے سیدنا معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو کوفیوں نے ان دونوں شہزادوں کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی۔ سیدنا حسینؓ نے بیعت توڑنے سے انکار کر دیا اور فرمایا: میں نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور عہد کر لیا ہے اب میرے لیے توڑنا مشکل ہے۔
وصیت اور وفات:
سیدنا معاویہؓ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:
’’اللہ کا خوف کرتے رہنا خوف کرنے والے کو اللہ مصائب سے بچائے گا جو اللہ سے نہیں ڈرتا اس کا کوئی مددگار نہیں۔ پھر اپنے ذاتی مال میں سے آدھا بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ تجہیز و تکفین کے متعلق وصیت کی کہ رسول اللہؐ نے مجھے ایک کرتہ عنایت فرمایا تھا۔ اس کو اس دن کے لیے میں نے محفوظ کر لیا تھا۔ آپؐ کے بال مبارک اور ناخن شیشے میں محفوظ ہیں۔ اس کرتے میں مجھے کفن دینا آپؐ کے ناخن اور بال میری آنکھوں میں رکھ دینا‘‘۔ 22 رجب 60ھ میں انتقال ہوا۔ سیدنا ضحاک بن قیسؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔