زینب الرٹ بل میں مولانا عبدالاکبر چترالی کی پیش کردہ ترامیم کو شامل کیا جائے

132

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی) قرآن و سنت میں خواتین اور بچوں سے ظلم او زیادتی کرنے والے مجرموں کی سزا واضح طور پر بتا ئی گئی ہے لیکن حکومت نے زینب الرٹ بل میں اس سزا کو صرف چودہ سال قید سے تبدیل کر دیا ہے۔خواتین کو حقوق دلوانے کے دعویدار اب خاموش کیوں ہیں ؟وہ سب سیاسی جماعتیںجو خو اتین کو حقوق دلوانے کے لیے سڑکوں پر واویلاکرتی ہیں اسمبلی اور پارلیمنٹ میں منصفانہ قوانین کیوں نہیں بناتی ؟۔یہ بات جماعت اسلامی حلقہ خواتین شمالی پنجاب کی ناظمہ ثمینہ احسان نے قومی اسمبلی سے زینب الرٹ بل میں مجرم کو عمر قید کی سزا دینے پر اپنے احتجاجی بیان میں کہی ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے جگر گوشوں کی ابرو ریزی کرنے والے اور ان سے زندہ رہنے کا حق چھیننے وا لے اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں جینے کا حق دیا جائے یہ معصوم بچیاں معاشرے سے اور اربابِ اختیار سے سوال کرتی ہیںکہ کیا ہماری جانیںاور عزتیں اتنی ارِزاں ہیں ؟زینب، نور،فرشتہ اور قصو ر کے معصوم بچوں کے والدین اور پوری قوم کی خواہش بھی یہی ہے کہ اس جرم کا ارتکا ب کرنے والوں کو سر عام پھانسی دی جا ئے۔جماعت اسلامی ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیتی رہی ہے امیر جما عت سینیٹر سرا ج الحق نے سینیٹ میں ترامیم نوٹ کروائی تھیں لیکن قومی اسمبلی سے بھی بل پاس کرالیا گیا۔ثمینہ احسان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زینب الرٹ بل میں رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کی پیش کردہ ترامیم کو شامل کیا جائے ۔جنہیں جمعیت علمائے اسلام کے ارکان ِقومی اسمبلی کی بھی حمایت حاصل ہے ۔انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ان جرائم کی پشت پنا ہی کرنے والوں اور معاونین کو بھی سزا دی جائے اور زیادتی کرنے والے مجرموں کو موت کی سزا دی جا ئے۔