ہمارے بچوں کو پاکستان لے آئیں،عدالت میں طالبعلم کی والدہ رو پڑیں

212

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سرابراہی میں کورونا وائرس سے متاثرہ چین کے صوبے میں پھنسے  پاکستانیوں کو واپس لانے کے کیس کی سماعت ہوئی،جس میں ڈی جی خارجہ امور اور سرکاری وکیل پیش ہوئے۔

عدالت موجود والدین نے سوال کیا کہ کابینہ نے ہمارے بچوں کو واپس لانے کیلئے کیا فیصلہ کیا؟ آج یہاں کوئی بتانے والا ہی نہیں، ہماری برداشت ختم ہو چکی ہے اور اب ہم اپنے بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتے، اگر حکومت ہمارے بچوں کو چین سے واپس نہیں لا سکتی تو ہم والدین کو چین بھجوا دے، کل ایک طالبعلم نے بتایا کہ چین میں کورونا وائرس کی کوریج پر مکمل پابندی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بعض معاملات قانونی نہیں ہوتے اور عدالت حکومتی پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، یہ عدالت کابینہ کی نیت پر تو شک نہیں کر سکتی، معاملہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ امریکا نے یورپ کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی ہے، کورونا وائرس اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہم حکومتی پالیسی میں مداخلت کا نہیں بلکہ پالیسی سے آگاہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پوری دنیا میں جو ہو رہا ہے اس کو سامنے رکھ کر بتائیں کہ ہم کیا آرڈر دے سکتے ہیں؟

ڈی جی خارجہ امور نے کہا کہ چین میں کورونا وائرس سے متاثرہ صوبے میں موجود پاکستانیوں کو رقم دی جائے گی۔

چین میں پاکستانی طالبعلم کی والدہ عدالت میں رو پڑیں اور کہا کہ ہمارے بچوں کو پاکستان لے آئیں، انہیں پیسے نہ دیں۔

چیف جسٹس نے چین میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کے معاملے پر وفاقی کابینہ کے فیصلے کی کاپی طلب کی۔

سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صدر پاکستان جلد چین کا دورہ کر رہے ہیں۔

عدالت میں موجود ڈی جی خارجہ امور نے کہا کہ چین سے پاکستانیوں کی واپسی سے متعلق کابینہ فیصلے سےابھی ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا اور صدر مملکت کے دورہ چین سے متعلق ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، جس پاکستانی کی چین میں موت ہوئی اس کا کورونا وائرس سے تعلق نہیں تھا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلیے حکومتی پالیسی سے بھی آگاہ کریں، اور 20 مارچ کو آگاہ کیا جائے۔