بے نظیر اور آصف زرداری کی شادی میں ضیا حکومت کا ہاتھ تھا

155

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور آصف علی زرداری کی شادی کرانے کی پشت پر جنرل ضیا الحق حکومت کا ہاتھ تھا اس بات کا انکشاف ریڈیو ، ٹی وی اور اخبارات کا رپورٹنگ اور دیگر شعبوں میں 50 سالہ خدمات کا تجربہ رکھنے والے ممتاز و نامور صحافی شبیر احمد صدیقی نے اپنی تصنیف ’’ صحافت سے صحافت ‘‘ میں کیا ہے۔ شبیر احمد صدیقی کی مختلف تحریروں پر مشتمل اس کتاب کو فضلی سنز نے شائع کیا ہے۔ کتاب میں بے نظیر بھٹو ، مرتضیٰ بھٹو مہاجر قومی موومنٹ کے رہنما عظیم احمد طارق اور پولیس افسر ذیشان کاظمی کے قتل کے واقعات اور جسارت سمیت مختلف اخبارات کا بھی ذکر ہے۔ شبیر احمد صدیقی نے بے نظیر کی شادی کس نے کرائی کے عنوان سے لکھا ہے کہ ایک دن اتفاق یہ ہوا کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دونوں کے نمائندے کراچی ائر پورٹ پر موجود تھے الیکٹرونک والے جنرل ضیا الحق اور پرنٹ والے بینظیر بھٹو کے لیے تھے ، جنرل ضیاالحق کراچی آرہے تھے اور بینظیر کراچی سے لندن جارہی تھیں ، اس
دوران اسپیشل فورس کے ایک افسر ہمارے یار عزیر و نوائے وقت کے چیف رپورٹر یوسف خان کے کان میں کوئی چونکا دینے والی بات کہہ گئے ، وہ حیرت سے یکدم کھڑے ہوگئے ، ہم نے معلوم کیا تو بولے یار یہ آدمی ہمیں عجیب بات بتا گیا ہے کہ بے نظیر منگنی کرنے لندن جارہی ہے ، بمبینو سینما والے حاکم علی زرداری کے بیٹے کے ساتھ جس پر انہوں ( یوسف خان ) نے اسپیشل والے سے پوچھا کہ یہ بات تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ رہے ہو تو اسپیشل والے نے جواب دیا کہ ہم یعنی حکومت کروارہی ہے ، ایک بڑی ڈیل کے تحت یہ رشتہ ہورہا ہے لیکن اس کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔ شبیر صدیقی لکھتے ہیں کہ یوسف خان نے کہا کہ ہم یہ خبر دینے کارسک نہیں لے سکتے جیالے ہمیں بہت ماریں گے۔لیکن چند دن بعد یہ خبر درست ثابت ہوگئی۔ بعد میںیہ بات بھی پتاچلی کہ بھٹو کے دونوں بیٹوں کی افغان بہنوں سے شادیاں بھی ضیا حکومت کا کمال تھاجبکہ دوسری طرف اطلاع کے مطابق بینظیر اور آصف زرداری کی شادی ذوالفقار علی بھٹو اور حاکم علی زرداری کی دوسری بیویوں نصرت اور ٹمی کا مشترکہ کارنامہ تھا ، ٹمی زیڈ اے بخاری کی صاحبزادی تھیں۔جو ممتاز براڈ کاسٹر اور صدا کار تھے۔ شبیر احمد صدیقی نے بینظیر اور عبدالرحمن کے عنوان سے کتاب میں لکھا ہے کہ بینظیر کی زندگی میں2 عبدالرحمن بڑی اہمیت رکھے تھے ایک سابق سینیٹر ملک عبدالرحمن اور دوسرے عبدالرحمن عرف ڈکیت ، ملک صاحب نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف اور بینظیر کے درمیان ڈیل کروائی تھی جس کے تحت مشرف صدر اور وزیراعظم بینظیر ہوتیں۔ اس ڈیل کو این آر او کے نام سے قانونی شکل دے دی گئی تھی۔ لیکن ملک عبدالرحمن جو بے نظیر کے سیکورٹی انچارج تھے ، لیاقت باغ کے جلسے کے بعد انہیں تنہا چھوڑ گئے تھے اس کے کچھ دیر بعد بینظیر کا قتل ہوگیا تھا۔ بعد میں ملک صاحب کو سینیٹربنادیا تھا دوسرے عبدالرحمن جو ڈکیت کے نام سے جانے جاتے تھے ، وہ تھے جنہوں نے کراچی میں کارساز کے قریب بے نظیر کے قافلے پر بم حملے کے بعد انہیںانتہائی برق رفتاری سے بلاول ہاؤس پہنچا کر ان کی جان بچائی تھی۔ ان کی گاڑی کی تیز رفتاری کے باعث ایک نجی ٹی وی کے کیمرا مین سمیت متعدد افراد ان کی گاڑی سے کچل کر مارے گئے تھے۔ بعد میں کچھ عرصے بعد عبدالرحمن عرف ڈکیٹ کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ شبیر صدیقی نے صحافت کے عملی ایام کا ذکر کرتے ہوئے روزنامہ جسارت کی ملازمت اور اس سے اس وقت وابستہ اپنے ساتھیوں ظہور نیازی ، ادریس بختیار ، مولانا صلاح الدین ، کشش صدیقی اور اس وقت کے اسپورٹس و پولیٹیکل رپورٹر نذیر خان اور ایڈیٹر الطاف حسن قریشی کا بھی خصوصی ذکر کیا ہے۔