میر شکیل کی گرفتاری، نیب کا غلط طریقۂ کار

436

نیب نے ایک مرتبہ پھر حیران کن طریقے سے کارروائی کرتے ہوئے 34 برس پرانے مقدمے میں جنگ اور جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن کو گرفتار کرلیا۔ پیشی پر نیب آنے والے میر شکیل الرحمن کو گرفتار کرنے کا سبب بھی بڑا عجیب ہے۔ اگرچہ بڑے ادارے بڑی گڑبڑ کرتے ہیں ان کے تمام معاملات صاف نہیں ہوتے لیکن نیب کا طریقۂ کار ہی کسی بھی ملزم کو مظلوم اور پاک صاف بنانے کا کام کرتا ہے۔ جنگ گروپ کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ قانونی طریقے سے تمام الزامات کا دفاع کر کے مقدمہ جھوٹا ثابت کریں گے۔ میر شکیل الرحمن نے تمام پراپرٹی قانونی طریقے سے خریدی ہے۔ نیب نے جنگ گروپ کے مالک پر حکومت سے فائدہ لینے کا الزام عاید کیا ہے۔ ابھی ان الزامات پر تحقیق ہوگی اس کے بعد ہی کوئی نتیجہ سامنے آئے گا۔ نیب کا یہ طریقۂ کار خوب ہے جس کے تحت وہ پہلے مرحلے میں گرفتاری کرڈالتا ہے۔ لیکن خرابی یہ ہے کہ نیب کے اب تک کے اہم سیاسی مقدمات میں الزامات ثابت نہیں ہوسکے ہیں اور نیب نے جن لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے وہ عدالتوں سے ضمانت لے کر رہا ہوگئے۔ اس کے بعد سوال پید اہوتا ہے کہ نیب کی کارکردگی کیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف ردعمل آئے ہیں لیکن ایک خرابی یہ ہوئی ہے کہ اس واقعے کے بعد میڈیا میں بھی گروپ بن گئے ہیں اور مختلف گروپس ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے نیب کو متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے عمران خان تو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ میر شکیل تیاری کرلے اسے پکڑ کر جیل میں ڈالیں گے۔ آخر عمران خان کو پہلے سے کیسے پتا ہوتا ہے کہ کون جیل جارہا ہے۔ عمران خان کے اس بیان کی ویڈیو کلپ جیو ٹی وی مسلسل دکھا رہا ہے۔ اس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے تو کھل کر اعتراف کرلیا کہ یہ سارا عمل جیو کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جیو ٹی وی اور جنگ میں حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا تھا۔ گویا جو اخبار یا ٹی وی حکومت کے خلاف بولے گا یا تنقید کرے گا اس کے مالک کو بند یا گرفتار کرلیا جائے گا۔ اگر کوئی اخبار غلط خبریں دے رہا ہے یا قانون سے تجاوز کررہا ہے تو اس کے طریقے دوسرے ہیں 34 برس پرانے معاملے میں مالک کو کیوں پکڑا اور اب تک کیوں نہیں پکڑا گیا۔ اگر حکومت پر تنقید جرم ہے تو بہت سے اخبارات یہ جرم کررہے ہیں اور اس بنیاد پر کارروائی کامطلب یہ ہے کہ حکومت آزادیٔ صحافت پر یقین نہیں رکھتی۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی ایک سوال اٹھایا ہے کہ اگر نیب عدالت میں اپنے الزامات ثابت نہ کرسکا تو کیا وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ذمے داری قبول کرے گا۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ نیب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اب غیر جانبدار ادارہ نہیں رہا بلکہ واضح تاثر ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر کارروائی کررہا ہے اور یہ کہ اس کے بیشتر ملزم عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں یہ صورت حال میڈیا اور جمہوریت پر بھی اثر انداز ہوگی۔ میر صاحب کی گرفتاری پر صحافیوں کی تنظیموں نے بھی احتجاج کیا ہے حالانکہ وہ چند روز قبل تک اپنی تنخواہوں اور کارکنوں کو بے روزگار کرنے پر انتظامیہ کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ بہرحال آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ بھی وزیراعظم عمران خان کے گلے پڑتا نظر آرہا ہے۔ کچھ چینلز اپنا بدلہ لے رہیں خاص طور پر وہ چینل جو کبھی جیو کی زد میں آئے تھے۔ اس موقع پر اے آر وائی نے میر شکیل کی سلاخوں کے پیچھے تصویر نشر کر کے خلاف قانون کام کیا ہے۔ میر شکیل اب تک دیگر ذرائع ابلاغ کو عدالتوں میں گھسیٹتے رہے ہیں لیکن آزادیٔ صحافت کو بچانے کے لیے اتحاد ضروری ہے۔