خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ارکان کی وزیراعلیٰ سے ملاقات ہوئی ہے اور پارلیمانی پارٹی اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر تنقید کی گئی ہے سیاسی جماعتوں میں ایسے واقعات نئے نہیں ہیں، ہمارے ہاں روایت یہی ہے کہ جب کسی سیاسی جماعت کی قیادت کسی مشکل میںگرفتار ہوئی تو پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اس کا راستہ کیسے روکا جائے؟ ہمیں اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ کسی سیاسی جماعت میں کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہورہا، وہاں کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے، ہمیں تو اپنی بات کرنے کے لیے فیڈریشن آف رائٹرز پاکستان کی صورت میں ایک پیلٹ فارم میسر ہے، جہاں ہم بات کر سکتے ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ کیایہ سچ نہیںہے کہ جب کوئی قیادت عمل نہ کرے، عدل نہ کر رہی ہو، اور وہ فعال بھی نہ رہے اور کیسے ممکن ہے کہ کارکن ایک سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں… محض ایک سراب کے پیچھے… جب حالات ایسے بن جائیں ہو تو پھر یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ اس کے کارکن کیا کریں؟ ایسے سوالوں کا اٹھنا جائز ہے اور ان کا جوب نہ ملنے تک نئے نئے سوالات اٹھنے لگتے ہیں، اب ہمیں اپنی اپنی سطح پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم یا ہماری تنظیم، یا ہماری ایسوسی ایشن، یا ہماری دوستی، کہیں ان حالات کا شکار تو نہیں؟ اگر ہے تو پھر یقین مانیے کہ کارکن ہوں یا عام دوست سب پرندوں کی مانند اپنے یہ گھونسلے چھوڑ جائیں گے اور ہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ وہ درخت کاٹ دیے جاتے ہیں جن پر کوئی پرندہ چہچہاتا نہیں ہے، یا کسی پرندے کے لیے اس درخت پر چہچہاہٹ کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔
ہماری اس بات میں ایک سبق ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی کیوں اپنی مخالف پارٹی کے وزیر اعلیٰ سے ملے ہیں، ان کا موقف ہے کہ وہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے ملاقات پر مجبور ہوئے ہیں… نہیں جناب، عوام سادہ ہیں اور نہ یہ ارکان اسمبلی… ملنے والے بھی جانتے ہیں کہ کیوں ملے، اور عوام بھی جانتے ہیں کہ ان ملاقاتوں کا مقصد کیا ہے… جب تک قیادت اپنے کارکن سے عدل کے ساتھ کام کرتی رہے گی، اس کے کارکن تمام مشکل حالات کے باوجود اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے لیکن جب عدل نہیں ہوگا، فیصلے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہوتے رہیں گے تو پرندے درخت بھی چھوڑ جائیں اور نئے گھونسلے آباد کریں، اور پھر ایک وقت آئے گا کہ وہ درخت بھی کاٹ دیے جائیں گے بہتر یہی ہوتا ہے کہ کارکن سے کبھی غیر مشروط حمایت نہیں مانگنی چاہیے بلکہ اسے عدل کے ساتھ تنظیم میں جڑے رہنے کا موقع دینا چاہیے۔
یہ معاملہ کسی ایک تنظیم کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ ہر دوستی، ہر ایسوسی ایشن، ہر فورم، ہر تنظیمی ادارہ، ہر اشاعتی ادارہ اور ہر غیر اشاعتی ادارہ، سب جگہ یہی ہوتا ہے… لوگ عدل کی وجہ سے جڑے رہتے ہیں جہاں عدل ختم ہوا، اور فیصلے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہونا شروع ہوئے تو زوال کی بنیاد یہی سے رکھی جاتی ہے اس صورت حال سے بچنا ہی چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی بات بھی سنی جائے، اور ان کی قابل عمل رائے کو اہمیت دی جائے انہیں عزت و احترام بھی دیا جائے ورنہ کیا ہوگا ایک ایک کانٹا چنتے چنتے عمر گزر جائے گی مگر مسائل پھر بھی حل نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت دونوں ایسی ملاقاتوں پر بہت جزبز ہورہی ہیں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سخت ایکشن لینے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے مگر وہ لوگ جو ملاقات کر چکے ہیں انہیں اب کسی طرح کے سخت ایکشن سے واپس لیا جاسکتا ہے؟ آج کل کوئی کسی کا زر خرید غلام نہیں ہوتا، سیدنا عمرؓ کا زمانہ ہوتا تو دیکھتے کہ کوئی آجر کسی اجیر کے ساتھ کیسے زیادتی کرنے کی جرأت کرتا؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت بے شک اپنے متعلقہ ارکان کیخلاف کارروائی عمل میں لائے اور ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر سے رجوع کرے تاہم یاد رکھے کہ اضطراب اور مایوسی عدل کا ماحول لاکر ہی ختم کی جاسکتی ہے اور یہ شرط کسی سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہے ہر ہر تنظیم کو اپنا گریبان جھانکنا ہوگا اور قیادت کو اپنا کتھارسس کرنا ہوگا… اصولوں کی مثالی سیاست میں تو کسی پارٹی کے ارکان کا اپنی مخالف پارٹی کے قائدین سے ملنا معیوب سمجھا جا سکتا ہے مگر جب پارٹی قیادتیں خود ہی اصولوں سے دستکش ہو جائیں تو اپنی پارٹی کے ارکان اور کارکنوں سے اصولوں کی پابندی کا متقاضی ہونا چہ معنی دارد؟