کورونا کی ہیبت طاری نہ کریں

6763

کورونا وائرس کی تباہ کاری سے زیادہ پاکستان میں حکومت کی بدحواسیاں جاری ہیں ۔ان شعوری یا غیر شعوری حماقتوںکے ذریعے ملک میں خوف کی فضا پیدا کردی گئی ہے ۔ تعلیمی ادارے بند ، معاشی سرگرمیاں بے یقینی کا شکار ، غیر ملک سے آنے اور جانے والے مشکلات کا شکار اور عملی طور پر ملک لاک ڈاؤن کاشکار ، یہ ہے وہ صورتحال جو پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت نے سندھ میں پیدا کی اور اب عمران خان نیازی نے اسے پورے ملک میں پھیلا دیا ہے ۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک پاکستان میں کورونا نے وباکی صورت اختیار نہیں کی ہے اور کسی متاثر انسان سے کسی دوسرے شہری میں یہ مرض منتقل نہیں ہوا ہے ۔ جتنے مریضوں میں ابھی تک کورونا کی تشخیص ہوئی ہے ، وہ سب بیرون ملک سے آئے ہیں اور وہیں سے انہیں یہ مرض منتقل ہوا ہے ۔ اب تو اس بات کو صحت کے شعبے سے متعلق امریکی حکام بھی تسلیم کررہے ہیں کہ امریکا میں کورونا کے نام سے جتنی اموات ہوئی ہیں ، ان میں سے بیشتر موسمی فلو سے ہوئی ہیں ۔ پہلے مریض کے اعلان کے ساتھ ہی سندھ حکومت نے صوبے میں چھٹیوں کا اعلان اس طرح سے کیا جیسے صوبہ کسی قدرتی آفت میں مبتلا ہوگیا ہو ۔ یہ آسان سا کام تھا کہ ایران یا دیگر ممالک سے جو لوگ پاکستان آرہے ہیں ، پورے ملک میں ہراس پھیلانے کے بجائے انہیں قرنطینہ میں رکھ لیا جاتا اور جن لوگوں میں اس مرض کی تصدیق ہوجاتی ، ان کا ضروری علاج کرلیا جاتا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے ۔ پی ایس ایل میں شائقین کی آمد کو روک دیا گیا ، تعلیمی ادارے بند کردیے گئے اور اب شنید ہے کہ ملک میں صحت ایمرجنسی کا اعلان کیا جارہا ہے۔ رائے ونڈ کا سالانہ اجتماع بھی پابندی کی زد میں ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ متوقع صحت ایمرجنسی کے تحت شادی بیاہ کے شرکاء کی تعداد کو بھی متعین کیا جائے گا ، نماز جمعہ سمیت دیگر نمازوں کے لیے ایک مختصر وقت مقرر کیا جائے گا اور بیرون ملک سے جتنے بھی افراد وطن واپس آرہے ہیں ، ان کے گھر کو قرنطینہ قرار دے کر انہیں 14 دن کے لیے محصور کردیا جائے گا۔ یہ سب تو کیا جارہا ہے مگر حکومت نے کسی بھی صوبے میں کورونا کے لیے کسی فوکل پرسن کا تقرر نہیں کیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کو کوئی بھی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ کتنے مشتبہ افراد کس اسپتال میںلائے گئے ، ان کے تشخیصی ٹیسٹ کے کیا نتائج نکلے ۔ کتنے مشتبہ افراد عام موسمی فلو کا شکار تھے، جو لوگ اسپتالوں میں کورونا کے شبہ میں قرنطینہ کیے جارہے ہیں ، ان سے یہ اسپتال کتنی بھاری فیس وصول کررہے ہیں اور حکومت میں اس کے نام پر کتنی بدعنوانی ہورہی ہے ۔ یہ سارے اسپتال تشخیصی ٹیسٹ کی اتنی بھاری فیس کیوں وصول کررہے ہیں ، سرکاری ریگولیٹری ادارے کہاں سو رہے ہیں ۔ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں ، جن کے بارے میں کہیں پر کوئی جواب نہیں ہے ۔ پاکستان ابھی تک ان ممالک میں شامل نہیں ہے جہاں پر یہ مرض وبا کی صورت اختیار کرگیا ہے ، اس لیے عمران خان نیازی کو چاہیے کہ اس معاملے کو اتنا ہی رکھیں ، جیسی صورتحال ہے ۔ عوام کو خوفزدہ کرنے سے ملک ہی کا نقصان ہوگا ۔ یہ عالمی اداروں کی پالیسی ہے اور ان کا اپنا ایجنڈا ہے ۔ پاکستان کو کسی اور کے ایجنڈے پر چلنے کے بجائے اپنے ملک کے مفاد کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت عوام میں یہ تاثر عام کردیا گیا ہے کہ جیسے کورونا وائرس کوئی قاتل وائرس ہے ، بس یہ جسے لگا وہ جان سے گیا ۔ حالانکہ عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا کے سارے ہی قابل ذکر ادارے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کورونا وائرس موسمی فلو کی طرح کا ایک وائرس ہے اور اس سے اب تک ہونے والا نقصان موسمی فلو سے ہونے والے نقصان سے بہت کم ہے ۔ اس سے دسیوں گنا زیادہ افراد تو ملیریا اور موسمی فلو سے ہر روز مر جاتے ہیں تو پھر ضرورت ہے کہ اصل مسئلے کی طرف توجہ دی جائے ۔ پاکستان میں صحت کے لیے ہنگامی حالت کا ضرور اعلان کیا جانا چاہیے مگر یہ ہنگامی حالت پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ہونی چاہیے ۔ اگر پورے ملک میں پینے کا صاف پانی فراہم کردیا جائے تو ڈائریا، گیسٹرو، ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام ، پولیو وغیرہ جیسی بیماریوں سے ازخود جان چھوٹ جائے گی ۔