زینب الرٹ بل نامکمل ہے

212

 

غزالہ عزیز

قصور کی کم سن بچی زینب کی تاریخ گمشدگی 4 جنوری 2018ء تھی اور تاریخ تدفین 10 جنوری 2019ء۔ آج اس دلخراش حادثے کو 2 سال گزر گئے۔ اِن 2 سال میں بتول، عائشہ، کائنات ، حوض کوثر، فیضان کتنے ہی بچے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیے گئے۔ سزا صرف زینب کے قاتل کو مل سکی، لیکن وہ بھی ایسی سزا نہ تھی کہ اُسے نشان عبرت بنایا گیا ہو۔ نشان عبرت بنانے کے لیے تو چوکوں چوراہوں پر ایسے پھانسی دینا ہو گی کہ دو تین دن اُن کی لاشوں کو لٹکا رہنے دیا جائے۔ اگر ایسے پھانسی دی جاتی تو ہی بچوں کو اس درندگی اور قتل سے بچایا جاسکتا تھا۔ اُس وقت ہر خاص و عام کی زبان پر یہی بات تھی کہ یہ درندے کسی نرمی کے مستحق نہیں۔ لہٰذا ایسا قانون بنایا جائے کہ انہیں فوری عدالتوں سے سزا دلوا کر سرعام پھانسیاں دی جاسکیں۔ آج 2 سال بعد قومی اسمبلی میں زینب الرٹ بل دوبارہ منظور کیا گیا، پہلی بار یہ بل 10 جنوری 2020ء میں منظور کیا گیا تھا، بعد میں چند ترامیم کے بعد اسے دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ ان ترامیم میں ایک اہم ترمیم اس کے دائرہ کار کو پورے ملک میں بڑھانے کی منظوری دی گئی۔ منظور کیے جانے والے بل کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم پر عمر قید میں کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ چودہ سال سزا دی جاسکے گی۔ جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق کا مطالبہ ہے کہ زینب الرٹ بل کے سیکشن 15 میں دفعہ 201، 302 اے اور 376 کو بھی شامل کیا جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بل میں قصاص کو شامل ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ بل بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل جیسے ہولناک جرائم کو روکنے کے لیے غیر موثر ہوگا۔
زینب کے والد کہتے ہیں کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا میں چاہتا ہوں کہ کسی والدین کے ساتھ نہ ہو۔ یقینا اس کے لیے بچوں سے زیادتی کرنے والے مجرموں کو سرعام سزائے موت ملنا چاہیے۔ سرعام سزائے موت ہوگی تو وہ افراد جن کے دل و دماغ میں جرائم پلتے ہیں وہ جرم کرنے سے ڈریں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معاشرے میں کمسن بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بچے اسی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں ان کے والدین اور رشتے دار سخت تشویش میں رہتے ہیں۔ بھلا کوئی کس طرح ایسے مجرموں کو تحفظ دے سکتا ہے؟ لیکن ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس بل میں سزائے موت کی مخالفت کی اور اس مخالفت پر وضاحت دیتے ہوئے سابق وزیراعظم پرویز اشرف نے کہا کہ سزائے موت سے متعلق پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پابند ہے، لہٰذا اس لیے اُن کی جماعت موت کی سزا کی حمایت نہیں کرسکتی۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے آخری دورِ حکومت میں موت کی سزا پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ نہ جانے کس خوف کے باعث یہ کیا گیا لیکن حقیقت میں یہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی ہی کی گئی ہے۔ بات عجیب ہے عوام کی بات کرنے والے عوام کے لیے غم کھانے والے وقت پر عوام کے بجائے مجرموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے بھی سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’’ہم میں سے بہت سے اس کے مخالف ہیں‘‘۔ تحریک انصاف کے ایک اور وزیر فواد چودھری نے سزائے موت کے حق میں پیش کی گئی قرارداد کو انتہا پسندی کا اظہار قرار دیا۔ سزائے موت دینا اور برسرعام دینا انتہا پسندی کیسے ہوسکتی ہے یہ تو جرائم کی روک تھام کے لیے ہمارا دین بتاتا ہے۔ انتہا پسند تو معصوم بچوں کے ساتھ گھنائونے جرائم کرنے والے اور ان کا ساتھ دینے والے ہیں۔ قتل کی سزا تو ہے ہی سزائے موت پھر معصوم پھول کے ساتھ درندگی کرنے والے کسی رحم دلی کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ دبائو کے تحت سزائے موت کی مخالفت کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام زمانے کے ساتھ چلنے کا درس نہیں دیتا بلکہ زمانے کو اپنے ساتھ چلانے کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا زینب الرٹ بل میں برسرعام سزائے موت کے بارے میں صاف اور واضح نکتہ ڈالا جائے کہ اس کے بغیر یہ بل بچوں کے خلاف جرائم کے خاتمے میں موثر ثابت نہیں ہوگا۔