عدلیہ ہی امید کی کرن ہے

295

 

 

سیاسی، سماجی، معاشی، اور علمی شعبے میں نمایاں کاکردگی کا نمایاں مظاہرہ کرنے والے یقینا کسی انعام کے حق دار ہوتے ہیں۔ ان کی خدمات، تحقیق صدیوں تک نسلوں کے کام کے آتی ہے اور رہنمائی دیتی ہے، لیکن ایک عرصہ ہوا اے پی این ایس کا فورم ہو یا سول ایوارڈ کے لیے بنائی جانی والی فہرست، یہ ایوارڈ اب سفارشی معلوم ہونے لگے ہیں، ایوارڈ کا پروٹوکول یہ ہے کہ اگر کسی کو بڑے درجے کا ایوارڈ مل جائے تو اسے کم تر درجے کا ایوارڈ نہیں دیا جاتا، ہمارے ہاں شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں میں بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے ذاتی کوشش کرکے ایوارڈ حاصل کرنے کی ’’کامیاب جدوجہد‘‘ کی اور حتی کہ بڑے درجے کا ایوارڈ پالینے کے بعد چھوٹے درجے کے ایوارڈ کے لیے بھی درخواست کی… ایوارڈز کی کہانی بھی بہت تلخ ہے، آج کل کسی بھی ایسوسی ایشن کے دفتر میں چلے جائیں، میئر اور ڈی سی کے دفتر چلے جائیں، میز پر یا، شوکیس میں ایوارڈز ہی نظر آئیں گے، اگر یہی رفتار رہی تو ایک روز لوگ ایوارڈ ہاتھ میں لیے پھریں گے اور کوئی لینے والا نہیں ملے گا۔ لاہور اورکراچی میں تو ایسی تقریبات ہوتی رہتی ہے، اسلام آباد میں اللہ کا شکر ہے ایسی عادت نہیں پڑی ، یہاں ایوارڈ دینے کے لیے ’’چن چن‘‘ خدمات تلاش کرنے زحمت سے محفوظ ہیں، دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسی معاشرے میں بے شمار ایسے کردار ہیں جنہیں صرف سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ایوارڈ نہیں ملتا۔ کیا کریں اب تو ایوارڈ بھی کمرشل ہوگئے ہیں ان کی تقسیم بھی انہی بنیادوں پر ہوتی ہے حتی کہ لوگوں سے ایوارڈ کے نام پر عطیات وصول کیے جاتے ہیں اس وجہ سے اُن لوگوں کو بھی ایوارڈ مل جاتے ہیں جو قطعاً مستحق نہیں ہوتے۔ ہم اسلام آباد کی بات کرلیتے ہیں، میئر اسلام آباد اور چیئرمین سی ڈی اے، دو دفاتر بھی ایسے ہیں جہاں ایوارڈ سجے ہوئے مل جائیں گے… مگر یہ ایوارڈ کس قیمت پر ملے ہیں؟ کیا یہ ایوارڈ اس لیے ملے ہیں کہ رہائشی علاقوں میں کمرشل اور کمرشل علاقوں میں رہائشی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں، شہر میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، گرین بیلٹس پر قبضے ہورہے ہیں، پارکنگ کا کوئی نظام نہیں ہے، سیوریج ابل رہے ہیں، اسٹریٹ لائٹس نہیں ہیں، بچوں کے کھیلنے کے پارکس، ’’جہازوں‘‘ کا مسکن بنے ہوئے ہیں، اور میئر اسلام آباد کے دفتر ایوارڈ سے سجا ہوا ہے۔ حد ہی ہوگئی۔
رواں ہفتے عدالت عظمیٰ میں ایک کیس کی سماعت ہوئی چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں فاضل جج صاحبان کا تین رکنی بینچ کے رو برو سماعت ہوئی ہے یہ معاملہ ابھی بھی معزز عدلیہ کے رو برو زیر التواء ہے، لہٰذا اس پر بات نہیں ہوسکتی تاہم عدلیہ کے ریمارکس ضرور دہرائے جاسکتے ہیں کیس یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد کے آئی نائن انڈسٹریل ایریا میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو طلب کیا اور عدالت نے اسلام آباد کو آلودگی سے پاک کرنے کا روڈ میپ بھی مانگا ہے اور ہدایت کی ہے کہ چیئرمین سی ڈی اے، میئر اسلام آباد، ڈی جی ماحولیاتی ایجنسی مل کر مسئلہ کا حل تلاش کریں صرف ایک روز کی کارروائی ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ہماری معزز عدلیہ شہر میں بڑھتی ہوئی گندگی پرکس قدر پریشان ہے اور سی ڈی اے کس قدر بے حس… امید ہے کہ اس کیس میں عدلیہ کا فیصلہ اسلام آباد کی قسمت بدل دے گا اور وہ لوگ جو محض پیسے کے بل بوتے پر یہاں فائلیں گھماتے رہتے ہیں اور اسلام آباد کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں عدلیہ ان لوگوں کا راستہ روکے گی۔ عدالت کے ریمارکس ہیں کہ اسلام آباد میں ماربل انڈسٹری لوگوں کو بیمار کررہی ہے۔ اسلام آباد میں پہاڑ کاٹے جارہے ہیں، محکمہ ماحولیات کے لوگ اپنے ہاتھ گرم کرکے واپس آجاتے ہیں سی ڈی اے اور ایم سی آئی کچھ کرنے کو تیار نہیں، رات کو ڈرائیور کے ساتھ اسلام آباد کا چکر لگاتا ہوں تو بڑی خوشبو آتی ہے اسلام آباد کی سڑکوں پر آپ کو گند اور کوڑا ملے گا، اسلام آباد میں لاقانونیت اور بیڈگورننس ہے، ایم سی آئی کو ملنے والا سارا پیسہ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے، ایم سی آئی اور سی ڈی اے ملازمین نظر نہیں آتے، لگتا ہے گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے ہوئے ہیں سی ڈی اے کا چپڑاسی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرادیتا ہے، سی ڈی اے عدالت عظمیٰ کے احکامات نہیں مانتا، سی ڈی اے کو معلوم نہیں کس چیز سے کھیل رہا ہے۔ عدالت ایک حکم پاس کرے تو سی ڈی اے بند اور ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔ سی ڈی اے کو آئین کے تحت نہیں چلنا تو قوم کو اس کی ضرورت نہیں۔
سب نے اپنے کام سے سمجھوتا کرلیا، پورے ملک کا یہ ہی حال ہے شہر کے درمیان میں آپ کا انڈسٹریل ایریا آگیا اسلام آباد سٹی کے اندر انڈسٹریل زون بنانے کی اجازت کس نے دی؟ اس کیس میں سی ڈی اے کے وکیل پیش ہوئے لیکن عدلیہ کو مطمئن کرنا ہوگا، اسلام آباد کی رعنائی پیسے کے کھیل میں ختم ہورہی ہے، اب عدلیہ یہ فیصلہ کرے گی کہ پیسہ نہیں قانون طاقت ور ہے اسلام آباد شہر کیسا شہر ہے کہ یہ تو اب قدرتی ماحول کھا رہا ہے، پہاڑ ختم ہونے لگے ہیں، نجی ہائوسنگ سوسائٹیاں تباہی مچا رہی ہیں، ٹیکسلا، فتح جنگ، راولپنڈی، سب اسلام آباد کے نام پر فروخت کیا جارہا ہے عدلیہ نے درست کہا کہ انڈسٹریل ایریا میں بفر زون کو ختم کر دیا گیا، اس بفر زون میں رہنے والے کون ہیں، ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ آئی نائن میں انڈسٹری بند اور وہاں پر وئیر ہائوس بن چکے ہیں، فاضل جج جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس تھے کہ گرین بیلٹ بھی ختم ہو گئی ہیں انڈسٹری کے ریگولیٹر کہاں ہیں، انڈسٹری کی نمائندگی کون کر رہا ہے اسی کیس میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے بھی ان کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا اور موقف دیاکہ سی ڈی اے کو نئے انڈسٹریل زون سے متعلق بار بار درخواست دی گئی ہے اب یہ بات
سامنے آئی ہے کہ آئی سترہ میں سی ڈی اے انڈسٹریل ایریا بنانے جا رہا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ دس سال بعد آئی سترہ بھی شہر کے درمیان آجائے گا، ٹیکسٹائل طرز کی انڈسٹری اسلام آباد میں بنا لیں لیکن اسٹیل کی فیکٹریاں گوجرانوالہ یا پشاور لے جائیں، ڈی جی ماحولیاتی تحفظ فرزانہ الطاف بھی پیش ہو ئیں کہا کہ ہمارے ادارے کے پاس تو ایک انسپکٹر تک نہیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری پوری قوم ہی دکاندار بن گئی ہے اسلام آباد میں اسٹیل مل کی صنعت لگنا سمجھ سے باہر ہے اگر اسلام آباد کے ماسٹر پلان کو بدلنے کی اجازت دی تو ایک ہفتے میں مارگلہ کی پہاڑیاں غائب ہوجائیں گی عدلیہ کی ایک روز کی کارروائی یہ بتا رہی ہے کہ کہ شہری مطالبہ کریں کہ وہ تمام ایوارڈ جو سفارشی دیے گئے ہیں اور جس جس بھی بیوروکریٹ، جن جن کو بھی ایوارڈ ملے ہیں ان سب سے واپس لیے جائیں۔