بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل

559

 

جاوید احمد خان

بھارت کے مسلمانوں کے سامنے آج سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ بھارت میں ان کا اور ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ تحریک پاکستان کے د وران کسی موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح سے سوال کیا گیا کہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کا تحفظ کون کرے گا۔ قائد اعظم نے جواب دیا کہ ایک مضبوط پاکستان بھارت کے مسلمانوں کا محافظ ہوگا۔ 1971 تک تو ہندوستان کے مسلمان اسی امید پر جی رہے تھے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا پاکستان آدھا رہ گیا اس کی قوت کمزوری میں بدل گئی۔ آج بھی بھارت کے بڑے شہروں کے ائر پورٹوں اور ریلوے اسٹیشنوں پربڑے بڑے ہورڈنگز لگے ہوئے ہیں جن میں جنرل اے کے نیازی کو جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے یہ تصویریں ہندوستان کے مسلمانوں کا منہ چڑانے اور ان کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ جس پاکستان کو تم اپنا پشتیبان سمجھتے ہو اس کو ہم نے تاریخ میں اس طرح شکست دی۔ جبکہ ہندوستان اور پاکستان کی نئی نسل کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کس طرح بین الاقوامی برادری نے اور بالخصوص بڑی طاقتوں نے بھارت کی پیٹھ تھپکی۔ کسی نے کھل کر اور کسی نے چھپ کر بھارت کی مدد کی روس کھلے عام بھارت کی حمایت کررہا تھا امریکا نے منافقت سے کام لیا، اس کا ساتوں بحری بیڑہ آج تک آہی رہا ہے۔
پوری دنیا یہ جان رہی تھی پاکستانی فوج نے حالات پر قابو پالیا ہے اور اس میں اس کو البدر اور الشمس جیسی مقامی تنظیموں کی زبردست معاونت حاصل تھی۔ ان دونوں تنظیموں میں 80فی صد بنگالی تھے۔ جو سب مقامی تھے۔ تین چار سال قبل متحدہ پاکستان کے ڈھاکا یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر کی کتاب شکست آرزو آئی ہے جس میں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مکتی باہنی نے انہیں ایک اسکول میں قید کیا ہوا تھا تو ان کی نگرانی پر جو لڑکا تعینات تھا اس نے بتایا کہ ہم تو مایوس ہو چکے تھے کہ پاکستانی فوج نے حالات پر قابو پالیا ہے اور بھارت واپس جانے کی سوچ رہے تھے کہ اچانک بھارت نے مشرقی پاکستان پر 22نومبر 1971 کو کئی مقامات سے حملہ کردیا اور اب 16دسمبر 1971 کو پاکستان فوج ہتھیار ڈالنے والی ہے بھارت نے بین الاقوامی حدود کی کراس کرکے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی تھی اس پر نہ صرف یو این او خاموش رہی بلکہ بڑی طاقتوں نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پاکستان کی فضائی قوت بالکل ختم ہو چکی تھی اور پاکستانی فوج انتہائی نامساعد حالات میں جنگ لڑرہی تھی ایک طرف ہندوستانی فوج دوسری طرف مکتی باہنی تیسری طرف نفرت غصہ سے لبریز بنگالی شہری جو فوجی سپاہی کو دیکھ کر اپنی زبان میں گالیاں بکتے اور برا بھلا کہتے اسی نفرت غصہ کو دل میں چھپائے وہ بنگالی افسران جو بظاہر تو حکومت پاکستان کے ملازم تھے لیکن عملاً وہ شیخ مجیب کے احکامات کی اطاعت کررہے تھے۔
بھارت پر مسلمانوں کی ایک ہزار سال سے زائد حکمرانی رہی ہے لیکن کوئی ایک واقعہ ایسا تاریخ میں نہیں ملے گا جس میں یہ بات سامنے آئی ہو کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے کہیں ہندوئوں کا قتل عام کیا ہو۔ 73سال سے ہندوئوں کی بھارت میں حکومت قائم ہے جہاں پورے ہندوستان میں اس میں کشمیر کو الگ کردیا جائے کہ وہاں تو آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اب تک ہزاروں بار مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں جن میں لاکھوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی، ہزاروں بچوں اور بوڑھوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا اربوں روپوں کی جائداد نذر آتش کردی گئیں۔ کشمیر میں جو ظلم و ستم کا بازار گرم ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ کشمیر کی گلیوں اور بازاروں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے کھلے عام لگائے جاتے ہیں اور اب تو بھارت کے اندر سے بھی ان نعروںکی صدائیں بلند ہورہی ہیں ایک ہندو لڑکی نے ایک جلسے میں پاکستان زندہ آباد کا نعرہ لگایا تو اسے گرفتار کرلیا گیا اور اب ان پر غداری کا مقدمہ قائم ہوگیا اور انتہا پسند تنظیموں نے اس کے سر کی قیمت بھی رکھ دی جو اس لڑکی کا سر لے کر آئے گا اس کو ایک کروڑ روپے ملیں گے۔
پچھلے دنوں دہلی میں جو مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے اور اس میں جو دل دہلادینے والے مناظر سامنے آئے ہیں اس پر تو بین الاقوامی میڈیا بھی چیخ اٹھا 13مارچ کے اخبارات میں ان فسادات کے حوالے سے نیو یارک ٹائم کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان فسادات میں ہندو بلوائیوں کے ساتھ دہلی پولیس نے بھی جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ خبر میں بتایا گیا کہ ہندو ہجوم نے جیسے ہی مسلمانوں پر حملے شروع کیے تو اعلیٰ حکام کی جانب سے پولیس اہلکاروں کو بندوقیں تھانے میں رکھنے کا حکم ملا۔ پولیس اجتماعی طور پر مسلمانوں کے خلاف گئی اور متحرک طریقے سے ہندو ہجوم کی مدد کی۔ خبر کی تفصیل یہ ہے کہ نئی دہلی میں ہونے والے حالیہ فسادات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہلی پولیس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو حدف بنایا۔ گزشتہ ماہ دہلی میں ہونے والے بدترین مذہبی فسادات کم از کم 50افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان اموات سے متعلق اسپتال کی فہرست سے معلوم ہوا تھا کہ ان افراد میں سے 2تہائی بھارت کی مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ فسادات کے دوران مساجد میں توڑ پھوڑ اور انہیں نذر آتش کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس کی کئی وڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں انہیں مسلمان مظاہرین پر حملہ کرتے اور ہندو ہجوم کو اس میں شامل ہونے پر زور دیتے ہوئے دیکھا گیا۔ مذکورہ رپورٹ میں پولیس کمانڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ (زیادہ تر ہندو ہجوم) کی جانب سے جیسے ہی تشدد شروع ہوا حکام نے ہمیں اپنی بندوقیں تھانے میں رکھنے کا کہہ دیا۔ تاہم نیو یارک ٹائمز کے صحافیوں نے بعد میں سنا کے حکام ایک دوسرے پر چیخ رہے تھے انہیں ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے لاٹھیاں نہیں بندوقوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ ان پرتشدد تصادم میں جو لوگ مارے گئے ان میں زیادہ تر مسلم تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی نے بھارتی پولیس کو سیاست زدہ کردیا ہے اس الزام کے لیے بھارت کے ایک اسکول پرنسپل کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں ملک کے نئے شہریت قانون سے متعلق اسٹیج پلے کرنے پر غداری کے الزامات پر جیل بھیج دیا گیا۔ مسلم ایکٹیوسٹ عمر خالد کے مطابق یہ اس جنون کا ایک طریقہ ہے حکومت پوری مسلم برادری کو اپنے گھٹنوں پر لانا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی اور ضروریات زندگی کی بھیک مانگ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کو مستقل خوف میں رہنا چاہیے۔
نیو یارک ٹائمز کی مذکورہ رپورٹ کی روشنی دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے ان فسادت اور تشدد میں انتہا پسند ہندوئوں نے درندگی کا مظاہرہ کیا تاکہ مسلمانوں کو خوف زدہ کردیا جائے ایک وڈیو وائرل ہوئی کہ کچھ ہندو انتہا پسندوں ایک خاتون اور اس کے شیرخوار بچے کو پکڑ کر لائے بچے کو بے دردی سے ماں کے سامنے جان سے مار دیا ماں پر بہیمانہ تشدد کیا اور پھر گڑھا کھود کر مردہ بچے اور زندہ ماں کو ایک ساتھ دفن کردیا۔ جب وہ انتہا پسند ہندو اپنی کارروائی کر کے چلے گئے تو کچھ مسلمان دوڑ کر آئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے مٹی کو ہٹانا شروع کیا کچھ دیر کے بعد بچے اور اس کی ماں کو نکال لیا لیکن وہ ماں بھی مرچکی تھی۔ یہ ہے آج کا بھارت جس میں مسلمانوں کا متقبل خطرے میں ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر اسی بھارت میں آگے چل کر کئی پاکستان بن سکتے ہیں۔