تحریر
٭٭
قموس گل
خٹک
ہمارے ملک میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں سب اپنی پارٹی سے وابستہ سیاستدانوں کو فرشتے اور مخالف جماعت کے دیانتدار سیاسی کارکنوں کو چور ڈاکو, مافیا اور کرپٹ کہہ کر عوام کو سیاست سے بدظن کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں۔ سندھ کے حکمران اور پارٹی رہنما دن رات وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنا کر خود کو جمہوریت کا چیمپئن اور مزدور دوست کے طورپر پیش کررہے ہیں لیکن سندھ کے ویلفیئر اداروں میں اپنے ذیلی تنظیم سے وابستہ افراد کے علاوہ دیگر دیر ٹریڈ یونین فیڈریشنوں کو ویلفیئر اداروں میں برداشت نہیں کرسکتے۔ جس کی وجہ سے سہ فریقی ویلفیئر اداروں کو تقریباً کمرشل اداروں جیسا بنایا جارہا ہے شاید اس کو حکمران جماعت کے رہنما جمہوریت اور مزدور دوستی کہتے ہوں گے۔ ملک میںسیاسی طورپر یہ رجحان زور پکڑ رہاہے کہ خود کو ٹھیک کرنے کے بجائے دوسروں کے اندر برائیاں تلاش کرکے تمام ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوجاؤ۔ اس طرز سیاست میں پی ٹی آئی سرفہرست نظر آتی ہے ۔مگر سندھ کی حکمران جماعت کا طرز سیاست بھی بالکل یہی بنتا جارہا ہے۔ آج سندھ میں صنعتی مزدوروں کے ساتھ کھلے عام جو زیادتیاں روا رکھی جارہی ہے اس کو دیکھ کر جنرل مشرف اور سندھ میں ایم کیو ایم کے وزیر محنت اور اے این پی کے امیر نواب کی تعریف نہ کرنا بے انصافی ہوگی عادل صدیقی کے دورمیں سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں بہترین نمائندہ اسٹیک ہولڈر کو نامزد کیا جاتا تھا اور امیر نواب کے دور میں ورکرز اور ایمپلائر کی نمائندگی میریٹ پر کی جاتی تھی۔ پھر جب مزدوروں کی ہمدرد غم خوار پیپلز پارٹی بلا شرکت برسر اقتدار آئی تو سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی اور سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے قوانین میں ایسی ترامیم کی گئی کہ حکومت کی ہر تجویز کسی بحث مباحثے کے بغیر منظور ہو۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی حکومت کو حاصل آئینی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے سہ فریقی ویلفیئر اداروں سے جومالی فوائد صنعتی کارکنوں کو مل رہے تھے۔ ان سے بھی مزدوروں کو محروم کردیا گیاجوپارٹی مزدوروں
کے ویلفیئر اداروں میں مستحق اور نمائندہ مزدور رہنما ؤں سے خوفزدہ ہو اور ان اداروں پر اپنے حامی غیر نمائندہ افراد و مسلط کرکے ہاں میں ہاں ملانے پر یہ ادارے چلارہے ہوں۔ تاکہ ان اداروں کے وسائل کو صنعتی مزدوروں کی سہولیات کے بجائے حکومتی پالیسی کے تحت استعمال کرسکیں۔ اس کو مزدور دوستی کے نعرے لگانے کا حق نہیں ہے۔ آج سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی کی گورننگ باڈی میں نامزد ممبران کی نمائندہ حیثیت کو دیکھ کر لوگ حیران ہیں اور کہتے ہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی بطور نمائندہ نامزد کیے گئے ہیں جن کو محلے والے بھی نہیں جانتے۔ مگر کسی کی سفارش یا پھر منہ بند رکھنے کی مہارت سے وہ نمائندے قرار دیے گئے ہیں۔ اس ادارے کے دواہم اسپتالوں کے انچارج کی تقرری اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ وہ اوپر والوں کو کتنا خوش رکھ سکتے ہیں۔ پہلے بھی ادویات کی خریداری ٹینڈر کی منظوری میں بااختیار شخصیات فوائد حاصل کرتے تھے۔ مگر جو کچھ اب ہورہاہے وہ بلاخوف اور کھلے عام ہے ہر کوئی دیکھ رہا ہے صرف یہ حکمرانوں نیب اور اینٹی کرپشن کو نظر نہیں آتا۔ سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ پر تو کرپشن کے ماہرین کا مکمل قبضہ ہے۔ سیکرٹری بورڈ تو چھ ماہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ لیکن جو جعلی پروجیکٹ بناکر اوپر والوں کو خوش کرنا جانتے ہیں۔ ان کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ وہ ایسے ایسے طریقے ایجاد کررہے ہیں جن کے بارے میں پہلے کرپٹ افراد بھی نہیں جانتے تھے، مکانا ت کی الاٹمنٹ پر سفید پوش ایجنٹوں کے ذریعے صنعتی مزدوروں سے پچاس ہزار وصول کیے جارہے ہیں۔ شاید اب تواس ریٹ میں اضافہ ہوجائے گا۔ کیونکہ بورڈ نے مکانات الاٹمنٹ کے لیے کمپیوٹر قرعہ اندازی کو ختم کرکے نام نہاد سنیارٹی کی بنیاد پر الاٹمنٹ کی پالیسی منظور کی ہے جس کو پیاچاہے وہ سہاگن والا فارمولا واحد سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ نے ایجاد کیا۔ ڈیتھ گرانٹ کے کلیم 2010سے دفتروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔جب سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے تحقیقات کے لیے مقرر جج صاحب نے سوشل سیکورٹی ہیڈ آفس میں سہ فریقی ویلفیئر اداروں کے سربراہوں اور مزدور رہنماؤں کو میٹنگ میں مدعو کیا تھا جس میں مزدور رہنماؤں نے جج صاحب کو بتایا کہ ڈیتھ گرانٹ کلیم پورے سندھ میں سال 2010سے پینڈنگ پڑے ہیں اور مرنے والے مزدوروں کی بیوائیں دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں۔ بورڈ کے مجاز نمائندوں نے انکشاف کیا کہ کراچی شہر میں ڈیتھ گرانٹ کاکوئی کیس پینڈنگ نہیںرہا۔ البتہ اندرون سندھ اور حیدرآباد ریجن میں کافی کیس پڑے ہیں۔ اس انکشاف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شاید کراچی کے لیے بورڈ کی الگ اور اندرون سندھ کے لیے الگ پالیسی ہوگی یا پھر کراچی میں ایسے ماہر ایجنٹ کام کررہے ہوں گے جو بار گیننگ کے ذریعے ڈیتھ گرانٹ منظور کراتے ہوں گے۔ میری فیڈریشن کے لاکھڑا کول فیلڈ یونٹ سے متعلق کانکنوں کے پچاس سے زائد کیس 2010سے پینڈنگ پڑے ہیں۔ جو شاید ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے ہوں گے۔ کچھ ڈیتھ گرانٹ کیس جو بڑی مشکل سے مکمل ہوگئے ہیں وہ بھی منظور نہیں ہوئے اور نہ اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ 28 فروری 2020 کو کراچی میں اسکروٹنی کمیٹی کی میٹنگ میں ایسے مکمل ڈیتھ گرانٹ کیسوں کی فہرست پیش کی گئی جس کو دیکھ کر کمیٹی میں ایمپلائیر کے نمائندے نے تین مرحومین کانکنوں کی بیواؤں کے ناموں پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ان مرحومین کی بیوائیں شانگلہ سوات میں کیوں ہیں، ان کیسوں میں شامل ڈاکومنٹ پر کوئی اعتراض نہ تھا۔تمام ڈاکومنٹ درست اور مکمل تھے پھر بھی فیصلہ کیا گیا کہ 12مارچ2020کو آئندہ اسکروٹنی کمیٹی کی میٹنگ میں ان تین بیواؤں کو پیش کیا جائے تاکہ معترض ممبرصاحب ان پر دہ نشین خواتین کو دیکھ کر اندازہ لگاسکیں کہ ان کے ڈیتھ گرانٹ کلیم درست ہیں یا نہیں۔ بورڈ کی پالیسی سے ناواقف ممبر کے اعتراض پر ڈپٹی ڈائریکٹر ویلفیئر احتشام خان میوو نے وضاحت تک نہیں کی کہ اسکروٹنی کمیٹی کسی مرحوم مزدور کے بیوہ کونہیں بلاسکتی۔ بورڈ کے فیصلوں اور پالیسی کے تحت ان کیسوں کو سفارش کے لیے مطلوبہ دستاویزات دیکھنے ہوتے ہیں۔ کیا اب مرحومین صنعتی مزدوروں کی بیواؤں کو یہ نمائندے دور دراز علاقوں سے کراچی بلاکر ان کی تذلیل کریں گے اور یہ بھی سعید غنی صاحب مزدور رہنما کے دور میں ہوگا۔ان خواتین کو اسکروٹنی کمیٹی میں پیش ہونے کے تحریری لیٹر جاری کیے گئے ہیں۔ جس کا جواب میں نے بیواؤں کی نمائندگی کرتے ہوئے بھیج دیا اور پوچھا ہے کہ یہ فیصلہ کس اختیار کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کی جائے۔ مرحومین کی بیوائیں ہرگز کمیٹی میں پیش نہیں ہوں گی۔اگر ان کے کیسوں کی سفارش ان کے چہرے دیکھنے سے مشروط ہے تو آپ یہی وجہ تحریر کرکے ان کیسوں کی سفارش نہ کریں ۔پھر ہمارے رد عمل کے لیے تیار رہیں دیکھتے ہیں کہ سیکرٹری بورڈ، سیکرٹری لیبر اور سعید غنی اس توہین آمیز فیصلے پر کیا کارروائی کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر سعید غنی تک میرا لیٹر پہنچنے دیا گیا تو وہ اختیارات اور بورڈ پالیسی سے بالاتر اس توہین آمیز فیصلے پر ضرور کارروائی کریں گے ۔