مسلمانوں کو بے وطن کرنے کی عالمگیر مہم

636

دُنیا بھر میں غیر قانونی کام کرنے اور دوسروں کے ملک میں مداخلت کرنے والے دوغلی پالیسی کے حامل امریکا نے ایک اور دوغلی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں مشرقی بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو عرب باشندے یا اسرائیل کے غیر آئینی باشندے قرار دیا ہے۔ یہ محض ایک رپورٹ یا کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمگیر سطح پر مسلمانوں کو بے وطن کرنے کے لیے چلائی جانے والی مہم کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ برما کی فوجی حکومت کی جانب سے روہنگیا کے اراکان مسلمانوں کے خلاف ہے۔ یہی رویہ بنگلا دیش میں موجود پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔ انہیں پاکستان کی حکومت پاکستانی تسلیم نہیں کرتی اور بنگلا دیش کی حکومت بنگلا دیش کا شہری ماننے کو تیار نہیں۔ بہت سے تو ایسے بھی ہیں جو تین چار الیکشن لڑ چکے لیکن اب حکومت انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں اسی طرح بھارت نے متنازعہ شہریت بل نافذ کر رکھا ہے۔ اس کے خلاف پورے بھارت میں آواز اٹھائی جا رہی ہے لیکن وہاں بھی جدی پشتی رہائشی لوگوں کو غیر ملکی شہری قرار دیا جا رہا ہے یا کم از کم بھارت کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ کشمیر میں بھی اس کی خصوصی حیثیت ختم کر کے مسلمانوں ہی کو غیر ملکی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور خدشہ ہے کہ کشمیر میں آبادی کا تناسب ہی بدل دیا جائے اور کسی وقت استصواب کی مجبوری ہو تو وہاں آبادی بھی ہندوئوں کی ثابت ہو جائے۔ کشمیر و فلسطین دنیا کے دو بڑے خطے ہیں جہاں اتنی بڑی آبادی کو ان کے وطن سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہی حال فلسطین کا ہے القدس شریف میں یہودی قبضہ 1948ء میں ہوا تھا، فلسطینیوں کی زمین پر برطانیہ کی مدد سے یہودیوں نے قبضہ کیا۔ رفتہ رفتہ فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا اور غیر ملکی یہودی اسرائیل کے شہری بن بیٹھے۔ امریکی دفتر خارجہ نے یہ بہت بڑا متضاد بیان جاری کیا ہے۔ اس کا اصل مقصد اس عالمگیر مہم کا تسلسل ہے جس کا نشانہ صرف مسلمان ہیں۔ درحقیقت یہ امریکا کی جانب سے ایک اور جرم ہے جو اس نے فلطسین کے حوالے سے کیا ہے۔ فلطسین میں فلسطینیوں کی معلوم تاریخ تو ڈھائی ہزار برس سے زیادہ کی ہے لیکن یہودی تو دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے ہیں۔ امریکی اس متضاد پالیسی پر کوئی نہ کوئی وضاحت کر بھی دیں گے لیکن ان کی وضاحت کی کیا حیثیت ہے۔ امریکا تو ہر معاملے میں دوہری پالیسی پر کاربند ہے، خود امریکا کا قیام غیر امریکیوں کے تسلط کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ امریکا میں ریڈ انڈین کو ختم کرکے گوروں نے ریاست قائم کی۔ آسٹریلیا میں ایب اوریجن کو نکال کر گوروں نے حکومت قائم کی۔ ساری دنیا میں مقامی لوگوں کو نکال کر ان کے ملک پر قبضہ کرکے حکومتیں بنانے اور بنوانے والے امریکا نے اگر فلسطین میں القدس کے شہریوں کے بارے میں ایسی رپورٹ دے دی ہے تو اس میں کون سا نیا کام ہوا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمران کیا کر رہے ہیں۔ اگر کبھی تھوڑا بہت ہمت کا مظاہرہ کر لیا جائے تو اسرائیل کے قضیے میں 1967ء سے قبل کی سرحدوں کو بحال کرنے کی بات کی جاتی ہے جبکہ فلسطین کے مسئلے کا حل 1948ء سے قبل کی حیثیت کی بحالی ہے۔ اسرائیل نامی ریاست تو مسلط کردہ ہے اگر عالم اسلام کے 57 ممالک اس نکتے پر متفق ہو کر آگے بڑھیں تو فلسطینیوں کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کو جس انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چین میں بھی مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ انہیں چینی کیمیونٹی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ کسی بھی دن چینی بھی مسلمانوں کے بارے میں اسی قسم کا کوئی فیصلہ سنا دیں گے۔ انہیں آبادی کا کوئی مسئلہ نہیں یہ تو اتنے سفاک ہیں کی لاکھوں لوگوں کو مار بھی سکتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ پہلے تو یہ انتشار کا شکار تھے اور خود کو امت کا حصہ بھی تصور کرتے تھے لیکن اب تو غلامی میں ہیں اور جس انداز میں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے امریکا کے احکامات نافذ کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں میں امریکی خوشی اور ناراضگی کا خیال رکھتے ہیں اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ جب تک یہ امت مسلمہ کا حصہ تھے اس وقت تک تو کبھی کبھی اتحاد امت کا مظاہرہ بھی ہو جاتا تھا۔ پہلی دو تین اسلامی سربراہ کانفرنسیں بھی اسی کا مظہر تھیں لیکن رفتہ رفتہ تمام چیزوں پر امریکا کا قبضہ ہو گیا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک ریاست امریکا کی حمایت میں دوسری ریاست کے حقوق غصب کرتی ہے اور دوسری ریاست امریکی سرپرستی میں اس سے لڑتی ہے۔ دونوں امریکی پٹھو بن جاتے ہیں، اُمت مسلمہ کہاں گئی۔ سب انفرادی طور پر حکمران ہیں۔ اس سے بڑی خرابی کی بات کیا ہوگی کہ دنیا بھر میں قبضے کرنے والے دوسروں کی شہریت کے بارے میں اعتراضات اٹھا رہے ہیں اور مسلمان حکمرانوں کی جانب سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔ لے دے کر فلسطینیوں کی تنظیم حماس نے اس پر اعتراض کیا ہے اسے فلسطینیوں کے خلاف نیا جرم قرار دیا ہے۔ فلسطین میں حماس، کشمیری مجاہدین، افغانستان میںطالبان یہی کچھ امت کی جمع پونجی ہے۔